Taawun

میری گلی، میری ذمہ داری

کوئی بیس پچیس سال پہلے کی بات ہوگی ۔ میرا ایک دوست تھا وہ پہلی  مرتبہ جرمنی گیا۔ وہ کہیں بازار میں جا رہا تھا۔ حسب معمول اس نے ایک ٹافی لی اوراس کا ریپر سڑک  پر پھینک دیا۔ اس کے پیچھے ایک بوڑھی جرمن خاتون آرہی تھی، تو اس خاتون نے وہ ریپر اٹھایا اور اس کو کوڑا دان میں ڈالا اوراس کو بلا کر کہا کہ

(Hey Man)

  لگتا ہے کہ آپ میرے ملک میں نئے آئیں ہیں؟۔ اس نے کہا ہاں، میں نیا  آیاہوں، اس نے کہا پھر آئندہ ایسا نہیں کرنا۔شہر کو  صاف ستھرا رکھنا  صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ صرف انہی کی ذمہ داری نہیں ہے، جو صبح آ کر اس کی صفائی کرتے ہیں ۔ جب تک میں اور آپ مل کر اس گلی کو، محلے کو صاف نہیں رکھیں گے تو یہ صاف نہیں ہوگا۔

میں آج صرف ایک موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ہےصفائی ستھرائی، میں نے اس کا نام رکھا ہے۔

 گلی میری ،صفائی میری۔

گلی میری کی  صفائی کی ذمہ داری بھی میری  ہے

یہ ممکنات میں سے نہیں ہے کہ حکومت کے کارندے ہی صفائی کریں اور ہم صرف گندگی ڈالنے کے لیے ہو ں۔جب تک گلی محلے کے لوگ خود بھی اپنی صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھیں گے۔ یقینی طور پر وہ صفائی ستھرائی نہیں رکھ سکتے۔

میرا ایک دوست ہےفیصل آباد  میں  رہتا ہے۔ ملاقات ہوئی ، میں نے پوچھاا ٓپ آجکل کیا کام کرتے ہیں؟ اس نے کہا ،ہم بہت زبردست کام کر رہے ہیں ۔کہتا ہے ایک تو پٹرول پمپ ہےجہاں پر ہماری روزی روٹی لگی ہوئی ہے۔لیکن ہم نے گاؤں میں صفائی ستھرائی کی مہم چلانی شروع کر دی ہے ۔ میں نے کہا اس میں  کیا فرق ہے ؟کہتا ہے کہ پہلے لوگ تعاون نہیں کرتےتھے ،لیکن اب تعاون کرتے ہیں ۔ہم کہتے ہیں، کہ یہ گاؤں آپ نے صاف رکھنا ہے باہر سے کوئی نہیں آئے گا ۔

مجھے ایک بات یاد ہے کہ ہم نے ایک دفعہ الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کے ساتھ ایک پراجیکٹ کیا۔ انہوں نے  پریزنٹیشن دی تو ایک سٹوڈنٹ نےپریزنٹیشن دی وہ بڑی دلچسپی تھی۔اس نے کہا کہ ہمارے گاؤں میں ایک روڑی (کوڑا پھینکنے والی جگہ)لگی ہوئی تھی۔ آپ کو پتا ہے گاؤں کے اندر کوئی کوڑا دان نہیں ہوتا ہے۔ اس نے کہا روڑی میری پیدائش سے پہلے کی کہیں لگی ہوئی تھی۔ وہی پر لوگ  کوڑاپھینک دیتے تھے اور کوڑا اِدھر اُدھر اڑ جاتا تھا ۔ تو ہم نے  روڑی صاف کرنے کے لیےٹرالیاں منگوائی  تو کوئی 14ٹرالیوں کی روڑی اکٹھی کر کے ہم نے کسی جگہ پر دبا دی، اور وہاں پہ چونا لگا کر ہم نےصفائی کر دی۔اب گاؤں والوں کو کہا گیا آئندہ سب لوگ اسی خاص کوڑا دان  کے اندر اپنا کوڑا ڈالیں گے، کچراڈالیں گے اور ہماری میونسپل کمیٹی والے لوگ ، یا UCوالے اس کو لے جائیں گے۔ میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں آئیں مل کر یہ طے کریں کہ جب تک میں اپنی گاڑی  میں سے باہر شاپر پھینکنا بندنہیں کرتا ،جب میں ریپر اٹھا کر اس کو کسی ٹھیک جگہ نہیں رکھتا تومیں صفائی ستھرائی نہیں کر سکتا ۔

مجھے لبرٹی مارکیٹ لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ اگر آپ این ایم سٹور اور کلفٹن شوز کےدرمیان میں سامنے والے حصے  میں صفائی ہو رہی تھی۔ دیوار کے ساتھ بہت سارے دہی بھلے بیچنےوالے اور اس طرح کی چیزیں گول گپے والے بھی ہیں۔  میں نے دیکھابالکل دیوار کےپیچھے کوڑے   اور پلاسٹک کی پلیٹوں کا اور باقی چیزوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ۔ آپ مجھے بتائیں کہ  کیا اس کے لیے بھی  کوئی صفائی والا ہونا چاہیے؟

دکانداروں کی  یونین موجود ہے ،لبرٹی لاہورکا بہترین علاقہ ہے، مہنگا ترین علاقہ ہے۔ ایک ایک  دوکان کے اندر کروڑوں روپے کاسامان پڑا ہوا ہے۔ لیکن کیا ہے؟ وہ شعوراور آگاہی نہیں ہے کہ یہ گندگی ہمیں نہیں پھیلانی اس کو کوڑا دان میں ڈالنا ہے۔

لیکن ہم  وہ شعور نہیں پیدا کرپائے ۔ آئیں ہمارے  ساتھ مل کر آپ یہ کام کریں۔ ہم بھی اس کےساتھ ہیں۔ آگاہی پھیلائیں کہ  صفائی ستھرائی کو اپنی ذمہ داری سمجھیں، اس کو اپنا فرض سمجھیں اور پھر اس فرض کو نبھائیں۔ اور اس طریقے سے نبھائیں کہ ہم گندگی ڈالنے والوں میں سے نہ ہو، بلکہ کم کرنے والوں میں سے ہوں۔

  آخری بات کر کے میں اپنا مؤقف مزید واضح کرنا چاہوں گا۔ایک دن میں پیدل کہیں جا رہا تھایہاں لاہور کالج روڈ کے پر صبح صبح کا وقت تھا۔ ایک لڑکا جو دکان  کی صفائی کر رہا تھا اور دکان سے سڑک کی طرف وہ کوڑا کرکٹ  لے کر آ رہا تھا۔ میں عادت سے مجبور  ہوں، میں نے اسے کہا کہ بھائی یہاں ٹوکری  رکھ لو اس میں ڈال دو، اور پھر اس کو کمیٹی والے اٹھا کر لے جائیں گے۔ کہتا ہے جی مسئلہ ہی کوئی نہیں،” اے ویکھو میں کوڑا سٹیا اے ایک ویگن آئے گی ادھا کوڑا گیا،دوجی ویگن آئے گی  تےسارا کوڑا ہوا چ چلا جائے گا” میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا کہ یار یہ دکان ہے اوردکان بھی کئی لاکھ روپے کی ہو گی۔ اس میں سامان بھی ہو گا۔ یہ لڑکا جو دکان پہ کام کرتا ہے یہ بھی کوئی دس، بارہ جماعتیں پڑا ہو گا ۔مالک بھی اس کا پڑھا لکھا ہو گا۔ لیکن شعور ہمارا یہ ہے کہ گندگی  اٹھا کرسڑک پہ ڈال دیں ویگن آئیں گی اٹھا کر لے جائے گی۔ تو ویگن کبھی تو اٹھا کر لے جاتی ہے ،لیکن جب کبھی نالہ بند ہو تو پانی پھر نالے میں نہیں جاتا ،پھر گھروں میں جاتا ہے ،اور اس کی ذمہ داری پھر کسی ایک پہ نہیں ڈالی جا سکتی  پورےمعاشرے پر ڈالی جائے گی ۔

 آئیں مل کر پورے پاکستان کو اپنے ہاتھوں سے صاف رکھنے کی کوشش کریں۔

اسی میں  زندگی ہے اوراسی میں صحت ہے۔ آج پچاس یا سو روپے کی ٹوکری نہیں لائی اور گندگی پھیلائی تو کل ہمیں ایک ہزار روپے ڈاکٹرکو بھی  دینا پڑے گا،بیمار بھی ہو ناپڑےگا، اپنے گھر پر رہنا پڑے گا،اور پھر چھٹی بھی نہیں ملتی۔

 آئیں میری گلی اور میری ذمہ داری کے نام سےاس پیغام کو آگے لے کر جائیں۔بہت بہت شکریہ

میں تو ایسا سوچتا ہوں

ڈاکٹر محمد  مشتاق مانگٹ

تعاون فاؤنڈیشن پاکستان

Facebook Comments Box

Related Posts

One thought on “میری گلی، میری ذمہ داری

  1. Khadim Hussain says:

    Truly agreed with your vision and mission

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *