انسانی نفسیات ایک سیال مادہ کی مانند : بہتر کارکردگی کا ایک سنہرا اصول
میں نے اپنی یونی ورسٹی میں ایک کورس کا مطالعہ کیا جس میں پرسنلٹی انٹیلیجنس کے بارے میں ایک مصنف نے جن کا نام ایرک ارکسن ہے، بہت ہی شاندار بات کی ہے ۔ ان کے مطابق انسان کی شخصیت ایک سیال مادہ کی مانند ہے ۔ جس طرح لوہے کو برتن میں نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ وہ ٹھوس مادہ ہے اور اس کے برعکس شہد کو برتن میں ڈالیں تو وہ برتن کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ اسی طرح انسانی شخصیت کے نفسیاتی پہلو بھی حالات کے پیش نظر تغیروتبدل کے زیر اثر آتے ہیں اور جس طرح انسان کی ذہنی نشوونما ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ نفسیات کی بھی بڑھوتری ہوتی ہے ۔
اگر آپ غور کریں تو آج سے دس بیس برس پہلے آپ کی نفسیات اور ذہنی سطح اس طرح نہیں ہونگی جسطرح موجودہ حالات میں ہیں۔ انسان کی عمر کے لحاظ سے یعنی بچپن ، لڑکپن ، نوجوانی اور ادھیڑ عمر میں انسان کی ذہنی حالت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ میں اس کی سادہ سی مثال یہی دے سکتا ہوں کہ ہم آٹھویں اور دسویں جماعت میں جو شرارت کر سکتے تھے، اب وہ نہیں کر سکتے ۔ جو انسان اپنی اس روش پر قائم رہتا ہے کہ میں عمر کے تقاضوں کو نظر انداز کر کہ یہ کام کر سکتا ہوں تو وہ آدمی اس پتھر کی مانند ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا ۔
ایسے ہی ایک مثال اور ہے کہ اگر بچہ شرارت نا کرے تو اس کا مطلب وہ بیمار ہے اور اس کے برعکس اگر بوڑھا شرارت کرے تو وہ بیمار ہے ۔اس بات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری شخصیت کا وقت کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے۔ ایرک کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگی کہ وقت اور ماحول کے ساتھ ساتھ انسانی شخصیت میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔
ایک انسان چند لمحوں کے اندر پیار بھی کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غصے کا اظہار بھی کرتا ہے ۔ میں جب جاب کرتا تھا تو میرے ایک سینئر باس جن کا نام عبدالسلام فاروقی تھا، میں نے ان کے میں یہ چیز دیکھی کہ وہ اگر کسی کے ساتھ فون پر غصے میں بات کررہے ہوں اور دوسری کال آنے پر وہ فورا اپنا لہجہ تبدیل کرتے اور بہت پیار کے ساتھ بات کرتے ۔
توقارئین اس بات کے بتانے کا مقصد یہ تھا کہ انسان کس طرح حالات اور وقت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتا ہے اور یہی زندگی کا حسن ہے کہ آپ حالات کے پیش نظر اپنی نفسیات میں تبدیلی لاتے ہیں۔
میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ آپ ہر غلط بات پر بھی امنا وصدقنا کا انداز اپنائیں اور اسی رو میں بہتے چلے جائیں بلکہ جو آپ نے اپنی زندگی میں اصول و ضوابط بنائے ہیں ان پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں ۔ اس کے برعکس آپ کو اپنے عمل اور رویے کے اندر تبدیلی لانی ہوگی ورنہ یہ دنیا آپ کو کوئی وقعت نہیں دے گی اور نا آپ سے محبت کرے گی اگر آپ اپنے معاملات میں ٹھوس اور جامد ہوں گے ۔
تو قارئین اکرام آئیے اور اس روش کو اپنائیں کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات اور رویوں کو تبدیل کریں گے اور دنیا کے ساتھ چلنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے ۔ اللہ تبارک و تعالی ہمیں دونوں جہانوں میں کامیاب کرے گا ۔ آمین
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان