Taawun

!میرا مقدمہ تو بنتا ہے

!میرا مقدمہ تو بنتا ہے
میرے گھر اُجڑنے کی ایف آئی آر تو لکھی جائے
میرے بچوں کے قاتل کا نام لکھا جائے
میری فصلوں کو اجاڑنے والے کا نام مجرموں کی فہرست میں لکھا جائے
لیکن
میں بے کس و مجبور انسان ہوں اس دنیا میں کوئی بھی
میرے قاتل
مجھ پر ظلم کرنے والے
میرا گھر اجاڑنے والے
میرے پیسوں سے پل بنانے والے جو ایک بارش بھی نہ سہہ سکے
انکے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا
میں بھی نہیں کرسکتا
لیکن میں اپنا یہ مقدمہ
اس کے حضور پیش کرتا ہوں جہاں پر کوئی بھی
زور، کوئی بھی دھونس اور دھاندلی نہیں ہو سکے گی
جہاں صرف اور صرف انصاف ہوگا

میرا پل بنانے والے، میرا بند بنانے والے، میری سڑک بنانے والے
تم نے ریاست کا پیسہ لے کر
تم نے یتیموں، مسکینوں کا مال لے کر
تم سب نے جس میں سیاسی قائدین بھی شامل ہیں
جس میں انجینئر بھی شامل ہے
جس میں اس کا ڈیزائن بنانے والا بھی شامل ہے
جس میں اعلیٰ سرکار ی ملازم بھی شامل ہیں
تم سب نے مل کر
وہ پل بنایا
وہ بند بنایا
وہ سڑک بنائی
جو ایک بھی بارش برداشت نہ کرسکے
پانی کی لہر میرا گھر بہا کر لے گئی
بارش میرے بچوں کو ڈبو کر ان کی لاش بھی لے گئی
بارش نے مجھے اجاڑ کر رکھ دیا
آج میں سڑک پر بیٹھا
ایک پلاسٹک شیٹ کی مدد سے اپنے بچوں کوبارش سے بچا رہا ہوں
کھانے کے لیے لائن میں کھڑا ہوں
تن پر کپڑے نہیں ہیں
بیٹی کا جہیز پانی میں بہہ گیا ہے جو میں نے تنکا تنکا اکٹھا کرکے بنایا تھا
میرا صرف یہی جرم ہے
کہ میں مجبوربے سہارا ہوں، کمزور ہوں
کسی تھانے میں کوئی میری ایف آئی آر نہیں لکھتا
کسی عدالت میں مجھے سنا نہیں جاتا
کسی سرکاری دفتر میں میری شنوائی نہیں ہوتی

میں آج ان سب سے مایوس ہو کر
اے میرے رب تجھی سے کہتا ہوں
میرے رب مجھے یہ تکلیف ہوئی ہے
بھوک کو سہنا پڑ رہا ہے
سختی کو برداشت کرنا پڑا ہے
اس کو تو ہی دور کر سکتا ہے
اس پر بدلہ تو ہی اچھا دے سکتا ہے
ان ظالموں
ان چوروں اور لٹیروں
کے خلاف مقدمہ
تیری عدالت میں پیش کرتا ہوں
اور مجھے امید ہے کہ تو مجھے کبھی بھی مایوس نہیں کرے گا
تو انصاف کرنے والا ہے
حشر والےدن تو انصاف ہوگا ہی
لیکن کیا تو دنیا میں انصاف نہیں کر سکتا
کیا میرے مجرموں کو سزا نہیں دے سکتا
یقیناً دے سکتا ہے
میں چاہتا ہوں کہ تم انہیں دنیا میں ہی سزا دو
تاکہ میں بھی دیکھوں
سب دنیا دیکھے کہ جنہوں نے سیمنٹ کی بجائے مٹی کے پل بنائے
ان کے ساتھ اس دنیا میں کیا ہوا
اس سے مجھے تو شاید کوئی فائدہ نہ ہو سکے
لیکن آنے والی نسلیں تو سوچیں گی ایسا نہیں کرنا چاہیے
تیرا
ایک مظلوم بندہ
جو آج اپنی باپردہ بیوی اور بیٹی کے ساتھ سڑک کنارے بیٹھا کسی طرف دیکھ رہا ہے
کہیں سے کھانا آئے
کہیں سے کوئی ٹینٹ آئے، کہیں سے کچھ صاف پانی آئے
بارش رکے تو واپس اپنے گھر جائے
پھر اینٹوں کوجوڑے، گارا اکٹھا کرے اور اپنا گھر پھر سے آباد کرے
خدا کرے کہ ا ب میں جو گھر بناؤں
وہ کسی پُل ٹوٹنے کی وجہ سے برباد نہ ہو

میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *