Taawun

پناہ گزین: ایک عظیم انسانی المیہ

دہشتگردی، سیاسی بحران، اندرونی انتشار اور قدرتی آفات کے باعث مہاجروں اور پناہ گزینوں کی بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئےاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے تحت سال 2001 میں یہ فیصلہ کیا کہ ہرسال 20جون کو مہاجروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا۔ اس دن کومنانے کا مقصد دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں مہاجروں کے گھمبیر انسانی مسئلہ کی طرف عالمی برادری کی توجہ مرکوز کروانا تھا۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنگوں اور ملکوں کے اندرونی ظلم وستم کی وجہ سے ایک منٹ میں 24 افراد گھر سے بےگھر ہورہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ہی ادارہ برائے مہاجرین کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے دو کروڑ دس لاکھ مہاجرین کا تعلق تین ممالک شام، افغانستان اور صومالیہ سے ہے۔ فلسطینی مسلمان بھی بڑی تعداد میں اس المیہ کا شکار ہیں۔ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد سے ان کی مشکلات اور انکی بےبسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

وطن سے محبت تو ہر شخص میں فطری جزبے کے طور پر ہوتی ہے، اسی سے تو جذباتی انسانی رشتے وجود میں آتے ہیں جن پر نغمے اور گیت لکھے جاتے ہیں۔ وطن سے محبت اور لگاؤ کا اندازہ وطن سے دور ہوجانے یا کر دیے جانے کے بعد ہوتا ہے۔

کوئی بھی شخص وطن سے دور انتہائی مجبوری یا ظلم کی بنا پر ہوتا ہے۔ حالات ایسے بن جاتے ہیں یا بنا دیے جاتے ہیں کہ لوگ ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہم 1947ء کی ہجرت کیسے بھول سکتے ییں۔ جب تقسیم ہند کے وقت دونوں اطراف کی آبادی کو اپنے گھروں سے بے گھر ہونا پڑا اور دنیا کی ایک عظیم اور الم ناک ہجرت نے جنم لیا۔ اس ہجرت میں انسانیت کو کیا کیا دکھ نہیں سہنا پڑے کہ جن کادرد آج بھی لوگوں میں تازہ ہے اور سلگتا رہتا ہے۔ مہاجرین کسی ایک ملک، مسلک یا مذہب کا مسئلہ نہیں یہ تو دنیا کا مشترکہ دکھ ہے۔ اگرچہ اسے عالمی مسئلے کے طور پر دنیا نے تسلیم تو کرلیا ہے مگر اسکے پائیدار حل کے لیے جس سنجیدہ احساس اور غوروفکر کی عالمی برادری کی طرف سے ضرروت ہے اسی کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ حل ہونے کی

بجائے گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔

تحریر: حمود الرحمن شاہین

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *