Taawun

معاشی حملہ: نئے دور کا ایک اہم ترین ہتھیار

آپ نے ایک لفظ کئی بار سنا ہو گا کہ’’ کسی نے کسی پر حملہ کردیا‘‘حملہ کرنے کی بہت ساری قسمیں ہو سکتی ہیں۔ پرانے وقتوں میں تو فوج ہی حملہ کرتی تھی، پھر ایک دفعہ ایٹمی حملہ کیا گیا۔ آج کل کے دور میں سائبر حملہ کی بات ہوتی ہے، لیکن ایک حملہ دنیا کا کامیاب ترین حملہ مانا جاتا ہے۔
صدیوں سے جو حملے ہوتے آرہے ہیں، اس سے تو بچا جاسکتا ہے، لیکن معاشی حملہ سے بچنا مشکل ہے۔ دنیا میں اب کوئی ملک ایسا نہیں رہا کہ وہ دوسرے ملک پر چڑھائی کرے اور اس کو تباہ کر دے جیسا ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ تیمور آیا، سکندر آیا انہوں نے ملکوں کے ملک فتح کیے۔ حال ہی میں صرف ایک واقعہ ہوا کہ روس نے یوکرین پر حملہ کیا اس کے باوجود کہ وہ ایک بہت بڑی طاقت ہے اور یوکرین کے مقابلے میں اس کی طاقت زیادہ ہے لیکن وہ بھی یوکرین میں ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکا اور پوری دنیا اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ کبھی وہ وقت تھا کہ روس نے وسطی ایشیا کی ریاستوں کو ختم کیا اور افغانستان میں بھی دس سال تک رہا لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ اب زمانہ بدل گیا ہے۔
اب ایک اور ہتھیار جس کا نام معاشی حملہ ہے، عام طور پر ایک بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے۔ یہ حملہ انفرادی ہو یا اجتماعی ایسا ہے کہ اس حملہ کی وجہ سے بہت دقت ہوسکتی ہے اور ہو رہی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں تقریباً ڈھائی سو ٹریلین ڈالر کا قرضہ ہے۔ میں نے ایک جگہ پڑھا کہ افریقہ کے ایک ملک کو تنخواہ دینے کے لیے قرضہ چاہیے، ہمارے ہاں پاکستان کے اندر بھی جومعاشی اشاریے ہیں وہ بتارہے ہیں کہ صرف سود ادا کرنے کے لیے ہمیں قرضہ چاہیے۔ میں ایک چھوٹی سی کاروباری دنیا سے تعلق رکھتا ہوں تو اس کاروباری دنیا میں اگر کوئی اصل زر واپس نہ کر سکے، ہم اسے کہتے ہیں کہ وہ دیوالیہ ہو گیا ہے۔ لیکن وہ کمپنی یا ادرہ جس پر سود تھا ،اصل زر تو دور کی بات اصل زر پر جو سود تھا، جو چند فیصد ہوتا ہے، اگر وہ بھی ادا نہیں کر پائے تو یقینی طور پر وہ کسی معاشی حملہ کا شکار ہو چکا ہے اور وہ اس جال میں آچکا ہے۔ اسے بہت ہی بری صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم پاکستانی جو قرض لے رہے ہیں وہ صرف سود ادا کرنے کے لیے لے رہے ہیں لیکن وہ کب وقت آئے گا کہ ہم اپنا قرض واپس کریں گے۔ اب ہوتا کیا ہے؟ ہوتا یہ ہے کے جب معاشی حملہ ہوتا ہے تو لوگوں کو اپنی روزی روٹی کی فکر پڑتی ہےتو پھر جو پیسے دینے والا ہوتا ہے وہ اپنی باتیں منواتا ہے۔ وہ کہتا ہے، تیل کی قیمت کو بڑھ دو، اپنے معاملات میں یہ کرو ۔پھر وہ جو بات کہتا ہے ہم وہ مانتے ہیں اگر نہیں مانتے تو وہی حال ہوتا ہے جو اس وقت سری لنکا کا ہے کہ وہاں پہ لوڈ شیڈنگ بھی ہے بجلی بھی نہیں ہے کچھ بھی نہیں ہے اور کوئی دنیا کا ملک اسے بچانے کے لیے نہیں جا رہا۔ کیوں جائے؟ کون ہے جو ایک ایسے ملک کو جو اس قابل بھی نہیں تھا کے اپنے قرضے واپس کر سکے اس ملک کو کوئی قرضہ کیسے دے؟ کون دے گا؟ اگر وہ دے گا تو واپس لے گا، یہ بات یاد رکھیں کہ ملکوں کی جو دوستی ہے یہ ذاتی دوستی نہیں ہے۔ ملکوں کی دوستی تو اپنے مفاد کی دوستی ہے۔ اس لیے موجودہ دور میں ہمیں انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی معاشی حملہ سے بچنا ہے ۔ آخری بات یہ ہے کہ معاشی حملہ میں ہم کیوں آتے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے ؟ میں نے زندگی میں جتنا اس کو پرکھا ہے، سوچا ہے، تو مجھے تو صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کے جب ہم اپنی خواہشات کو ضروریات بنا لیتے ہیں اپنی خواہشات کو اتنا بڑھا لیتے ہیں کہ ہماری جیب میں کوئی پیسے نہیں ہوتے لیکن چیز لینا چاہتے ہیں،ہم بلاوجہ اپنے آپ کو بڑا کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے پاس اتنے پیسے اور وسائل نہیں ہیں تو ان کو پورا کرنے کے لیے ہم قرض لیتے ہیں، اور جب قرض لیتے ہیں تو اس میں کرپشن بھی ہوتی ہے ضیاع بھی ہوتا ہے اور ضروری نہیں کے آپ نے کسی پروجیکٹ کے لیے قرض لیا ہے وہ پراجیکٹ آپ کو واپس بھی کر سکے۔ ایسا نہیں ہے کہ قرض نہیں لینا چاہیے لیکن ایک خاص حد تک کہ آپ کی جو پوری کی پوری اکنامکس ہے وہ خراب نہ ہو۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میری ذاتی زندگی میں بھی اور میری اجتماعی زندگی میں بھی جومعاشی حملے ہیں ان سے بچنا چاہیے۔ مجھے بارہا یہ فون آتا ہے کہ آپ ہم سے قرضہ لے لیں،یہ گاڑی قرض پہ لے لیں،یہ مکان قرض پہ لے لیں۔ ان بنک کے افسروں کی تو نوکری ہے، وہ تو کام کر رہے کہ جب ایک ڈیل مکمل ہوجائے گی تو انہیں تو پروموشن مل ہو گی۔ وہ تو گاہک پھنسانا چاہتے ہیں۔ تو کون پھنسے گا؟ ہم پھنسیں گے اس لیے میرے دوستو! قرض اتنا ہی لینا چاہیے جتنا آپ ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں اور ضروری ہے کہ آپ اپنے پراجیکٹس کے لیے قرض لیں اس کو واپس کرنے کے لیے لیں۔ آخر میں ایک بات کر کے اجازت چاہوں گا کہ میں نے ایک دفعہ پڑھا کہ برطانیہ میں ایک شخص نے فزیبلٹی رپورٹ بنائی ہے اور بنک کو دی اور بنک سے قرضہ لیا اور پراجیکٹ شروع کیااور اس کے پراجیکٹ میں نقصان ہو گیا۔ وہ شخص عدالت چلا گیا اس نے عدالت میں جا کر کہا کہ یہ قصور بنک والوں کا ہے میں نے بنک کو پوری فزیبلٹی رپورٹ بنا کر دی تھی کے یہ میرا پراجیکٹ ہے یہ میں کروں گا اب بنک کے لوگوں کی جو ذمہ داری تھی کہ وہ میری پراجیکٹ کی فزیبلٹی کو غور سے پڑھتے، دیکھتے اور مجھے بتاتے کے یہ جو فزیبلٹی آپ نے بنائی ہے یہ فزیبل نہیں ہے یہ پراجیکٹ نہیں چل سکتا انہوں نے اپنی کارکردگی بڑھانے کے لیے میری فزیبلٹی کو بغیر دیکھے مجھے قرض دے دیا اور آج مجھے اس کا نقصان ہوا ہے تو اس لیے میں ذمہ دار نہیں ہوں بنک ذمہ دار ہے ۔عدالت نے فیصلہ کیا وہ تو مجھ معلوم نہیں لیکن بات مجھے سمجھ میں آئی کہ یہ جو قرض دینے والے ہوتے ہیں یہ ضروری نہیں ہے کہ سمجھیں کے آپ کا پراجیکٹ فزیبل ہے یا نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ قرض دیں کچھ نہ کچھ تو ہم ان سے سود لیں گےاور ہمارے پیسے تو ہمیں مل ہی جائیں گے اللہ رب العزت ایسے لوگوں کے معاشی حملہ سےبچائے آمین ثمہ آمین۔

میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ

تعاون فاؤنڈیشن پاکستان 

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *