آج میں تین اصطلاحات آپ کےسامنے رکھنا چاہوں گا۔Hand Worker، Knowledge Worker اور Learning Worker ۔ Hand Worker کی تو بڑی سادہ سی تعریف ہے کہ جو شخص اپنے ہاتھ سے کام کرتا ہے، کسی کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کام کرتا ہےخواہ وہ کھیت میں کام کرے یا کسی کارخانے میں ۔ ایسا شخص کوئی نیا کام نہیں کرتا۔ اسے ایک طریقہ کار بتایا جاتا ہے وہ اس کے مطابق کام کرتا ہے اور چلاجاتا ہے۔ جو کام اسے دیا جاتا ہے وہ کر دیتا ہے۔ اسے ہم کہتے ہیں کہ یہ Hand Worker ہے، یہ ایک مزدور ہے، یہ ایک مشین اپریٹر ہے ۔
جب ہم کسی آدمی کو کام کے لیے بلاتے ہیں، رکھتے ہیں تو ہم اس کی ڈگری چیک کرتے ہیں ،اس کی ساری چیزیں دیکھتے ہیں ، مہارت دیکھتے ہیں، بات چیت دیکھتے ہیں اور پھر اسے اپنی کمپنی میں کام کے لیے رکھتے ہیں ۔ جو ضرورت ہوتی ہے اس کے مطابق اگر اس کے اندر مہارت ہو، تعلیم ہو، علم ہو تو ہم اسے رکھ لیتے ہیں ہم اسے Knowledge Worker کہتے ہیں۔ یعنی اس فرد میں سمجھنے سوچنے کی صلاحیت ہے، یہ کوئی منصوبہ بنا سکتا ہے، کسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔
Learning Worker وہ ہیں جو مستقبل میں دیکھتے ہیں۔ مثلاً ایک ادارے میں آپ کام کرتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ جو آج آپ کی ضرورت ہو وہ کل بھی ہو۔ بڑی سادہ سی مثال ہے ،بیس تیس سال پہلے Google ، E-mail، Whats app، Facebook، Twitterوغیرہ نہیں تھے۔ اس طرح کا کوئی نظام نہیں تھا ۔ ہم کئی دیگر طریقوں سے کام کرتے تھے۔ اگر آپ کو ٹیلی فون یاد ہو تو ہم ٹیلی فون کوگھما گھما کر بات کرتے تھے۔ گاڑیوں کی بات یاد ہو تو ہمارے پاس نان اے سی بسیں ہوتی تھی اور پتہ نہیں کیا کیا چیزیں تھیں؟ جو پہلے سے بہتر ہوتی چلی گئی ہیں اور بہت ساری نئی چیزیں ہمارے سامنے آگئی ہیں۔
آج یہ واٹس ایپ، انسٹاگرام ، فیس بک ، جی میل اور ای میل کتنی اہم چیزیں ہیں۔ ان کے بغیر ہم زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔یہ سب جو ہمارے پاس ہے پہلے نہیں تھا۔ یہ سب سوشل میڈیا ہے۔ تو کیا ایسا نہیں ہوگا کہ جب ان چیزوں نے کسی اور کی جگہ لی ہے تو کوئی نئی چیز آئے گی اور ان کی جگہ لےلی گی۔ شاید بیس تیس سال بعد آنے والی نسلیں بات کریں اچھا آپ کے زمانے میں گوگل Google ہوا کرتا تھا، آپ جی میل پہ کام کرتے تھے ، فیس بک کو چلاتے تھے، ان کے پاس پتہ نہیں کیا ہوگا؟
جیسے ماضی کی اہم چیزیں آج قصہ پارینہ بن گئیں ہیں اسی طرح سے آج کی چیزیں بھی کبھی قصہ پارینہ کیوں نہیں بنیں گیں ۔۔۔ یقیناً بنیں گیں ۔۔۔ ان کی جگہ کئی چیزیں آ جائیں گی۔
Learning Worker وہ ہوتا ہے ،جو مشورے دیتا ہے، نئی سوچ دیتا ہے، اورپھر وہ سوچ کام کرتی ہے اور وہ کام ایک فرد کا
نہیں ہزاروں، لاکھوں لوگوں کا کام کرتی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق 1900ء میں اوسطا” اداروں میں صرف اوسطا” 17 فیصد Learning Worker تھے اور 83 فیصد لوگ وہ ہوتے تھے جنہیں ہم ہینڈ ورکر کا نام دیتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 2000ء میں 75 فیصد Knowledge Worker اور صرف 25 فیصد ہاتھ سے کام کرنے والے رہ گئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خودکار طریقہ کار تھا۔ جیسے ہی جدت آئی تو ایک سو آدمیوں کا کام صرف ایک آدمی کرنے لگا اورہینڈ ورکر کی چھٹی ہو گئی۔
آپ نے یہ مٹی کھودنے والی مشینیں دیکھی ہیں، ہل چلانے والی ، پیداوارکی ، ہاتھ سے چلنے والی کھڈی سے لے کر ایک دن میں چار سو میٹر کپڑا بنانے والی مشینیں ، پرنٹنگ کی، ڈائینگ کی،پیپرکی ،جس بھی انڈسٹری میں چلے جائیں۔ تو ان سب چیزوں میں ہونے والی جدت نے ہاتھ سے کام کرنے والو ں کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے۔
یہاں میں آپ کو ایک مثال دینا چاہوں گا۔ Levi’s دنیا کی سب سے بڑی ڈینم بنانے والی فرم ہے لیکن پوری دنیا کے اندر ان کی ایک بھی مشین نہیں ہے ۔ وہ ڈیزائن کرتے ہیں، ان کا فیشن ڈیزائنر، ڈیزائن بناتا ہے، ہمارے پاس اس کا نمونہ آتا ہے اور پوری مل کے ہزار ہا لوگ ہاتھ سے کام کرتے ہیں ۔ہم ان کے Hand Worker ہیں ، وہ ان کے Knowledge Worker ہیں اور جو مستقبل کے لیے ڈیزائننگ کرتے ہیں وہ ان کے Learning Worker ہیں۔
اس وقت Learning Workers کی آمدن کا حساب آپ یہ لگا لیں، کہ صرف Amazon کے مالک کی آمدن ملینز میں ہے ۔ اچھے سے اچھا ورکر ہوگا تو وہ تیس ،چالیس ڈالر گھنٹہ سے اوپر نہیں جا سکتا۔ ہمارے پاکستان میں کم از کم تنخواہ بتیس ہزار ہے لیکن کسی کمپنی میں آپ کو ایسےافرادملیں گے، جو لاکھوں میں تنخواہ لیتےہیں۔
فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ وہ Knowledge یا Learning Worker ہیں۔ Learning Worker کیسے بنتا ہے؟ جہاں اس کے لیے بہت زیادہ طریقے ہیں وہیں پر ایک طریقہ پڑھنا ہے۔ میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں کہ کس طریقے سے دنیا کے امیر ترین شخص جو نئی سوچ دیتے ہیں کس طرح پڑھتے ہیں. ایک عام اندازے کے مطابق ایسا شخص جو نئے آئیڈیاز دیتا ہے وہ کم از کم چار سے پانچ گھنٹے روزانہ پڑھنے میں صرف کرتا ہے۔ وہ، کتابیں اور رپورٹیں پڑھتا ہے اور اپنے علم میں اضافہ کرتا تھا۔ اس بنیاد پر کہ 15 سے 20سال بعد کیا ضروریات ہوں گی، وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے۔
جیسے ہی Uber آئی, ہمارے بہت سارے ٹیکسی ڈرائیور فارغ ہو گئے، ایمازان نے آئن لائن کتابوں کی ترسیل کا کام شروع کیا۔ اس کرونا کے دوران زندہ صرف وہی بچا جس نے آئن لائن کاروبار کیا ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی Learner Worker بنیں۔ توپھر اس کے لیے ضروری ہے، کہ ہم پڑھنے کو ترجیح دیں۔ اگر ہم یہ پڑھیں گے تو ہم انشاءاللہ العزیز Learner Worker بنیں گے۔
آخری بات میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں۔ کبھی آپ نے سوچا کہ تاج محل کس نے بنایا تھا؟ کس نے وہ پتھر جوڑے؟ کس نے اونچائی پر جا کر اس کو رگڑا؟ کس طریقے سے اس نے بیلنس کیا، دیواروں کو سیدھا کیا؟ کسی کا کہیں کوئی نام نہیں ہے۔ نام ہے تو استاد احمد لاہوری کا ہے کیونکہ اس نے اس کاوش پر کام کیا تھا۔ انعام کس کو ملا؟ استاد احمد لاہوری کو۔
آنے والا دور Hand Worker کی طلب کو مزید کم کر دے گا اور میں آپ سے یہ بھی کہوں گا کہ Knowledge Worker کی طلب بھی آہستہ آہستہ کم ہو جائے گی۔ وہی وقت ہوگا جس کو Learning Worker کہتے ہیں۔جو مستقبل کو دیکھ سکتا ہے، جو آج ہمیں یہ بتائے کہ اگر گوگل نہیں ہوگا تو پھر کیا ہوگا؟ اگر ایمازان نہیں ہوگا تو اس کی اگلی شکل کیسی آئے گی؟ اوبر کی اگلی شکل کیسی آئے گی ؟کیسی اگلی دوائیاں ہوں گی؟
انشاءاللہ العزیز اگر ہم نے اس طرح سوچا تو پھر ہمLevi’s کی پتلونیں بنانے والے نہیں ہوں گے بلکہ ہم Levi’s کے ڈیزائن کرنے والے ہوں گے۔ ہم اپنے ڈینم کو ڈیزائن کرنے والے ہوں گے اور پھر ہم ہی میں سے کچھ لوگ ہوں گے جن کی لاکھوں ڈالر آمدنی ہوسکتی ہے۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان