پاکستان 1947 کو معرضِ وجود میں آیا اور 1951 میں پہلی مردم شماری ہوئی ۔ اس مردم شماری کے مطابق پاکستان میں 19 فیصد مرد اور 12 فیصد خواتین پڑھی لکھی قرار دی گئی ، اوسط 16 فیصد تھی۔ 1950سے 2020تک ان 70سالوں میں ہم نے یہ سفر طے کیا اورکرتےکرتے آج ہم تقریبا ً60 سے 65فیصد کے درمیان میں کھڑے ہیں۔
اس کے ساتھ ایک دلچسپ بات اور بھی آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ۔ کیا آج سے دو صدیاں پہلے دنیا میں صرف 10سے 12 فیصد لوگ پڑھے ہوئے تھے اور اب آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں اوسطاً70سے 80فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ جو لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، ان میں بہت سارےممالک ہیں جہاں پر صرف 30فیصد تعلیم ہے ،کہیں50 اور کہیں60 فیصدہے۔ جب ایک پوری فہرست بنتی ہے تو نیچے سے ہمارا تیسرا یا چوتھا نمبر آتا ہے اور اوپر پوری دنیا کے باقی تمام مالک ہیں۔
تعلیم کی اہمیت مجھے آپ کو واضح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لیے ہمارا دین ہمیں کیا سکھاتا ہے؟ نبی کریمﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے” علم حاصل کرنا ہر مرد اورعورت پر فرض قرار دیا گیاہے”۔ یہ حدیث آپ نےکئی مرتبہ سنی ہے۔ تو پھر کیوں ایسا نہیں ہوا ؟
کہ جو ملک جہاں 95 فیصدسے زیادہ مسلمان رہتے ہیں وہاں تعلیم کی شرح 95 فیصد کیوں نہیں ہے؟جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک کی جنوبی ریاستیں وہاں پر بےشمار ریاستیں ایسی ہیں جہاں پر تعلیم کی شرح 95 فیصدسے زیادہ ہے۔کیااس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے اس کو اہمیت نہیں دی؟
آپ اس بات پر بھی غور کریں کہ اگر کوئی شخص پڑھا لکھا نہیں ہے۔فرض کریں بعض لوگ 50 فیصد بھی پڑھے لکھے نہیں اس کا مطلب 50 فیصد مسلمان پاکستان میں ایسے ہیں جو قرآن پاک نہیں پڑھ سکتےاگر وہ قرآن پڑھ سکتے تو یقینی طور پر وہ خواندہ شمار ہوتے۔
میں اس پورے منظرنامہ کو ایک دوسرے زاویےسے دیکھتا ہوں۔ہم 12 سے 14فیصد سے چل کے 60 فیصد تک آ گئے ہیں۔ہمارےپاس ایک یونیورسٹی تھی اورآج ہمارے پاس 200 سےزائد یونیورسٹیز ہیں۔ ہمارے پاس ایک آدھ میڈیکل کالج تھا اب ہمارے پاس بےشمار میڈیکل کالجزہیں۔ میں یہ لازما ًکہوں گا، پاکستان ان 70 سالوں میں بطور ِریاست ایک فیل ریاست نہیں تھی۔ بہت ساری چیزیں جمع تفریق ہوتی رہی ہیں۔ لیکن ترقی کا سفر چلتا رہالیکن جتنی ترقی ہونی چاہیے تھی، تعلیم میں یا باقی معاملات میں اتنی نہیں ہوئی ،تنزلی بھی نہیں ہوئی۔ باوجود اس کے کہ ہم بڑی دیر سے حالت جنگ میں ہیں۔ کبھی مشرق کی طرف سے کبھی مغرب کی طرف سے۔
آئیے آج ہم اس عالمی دن کو مناتے ہوئے صرف دن نہ منائیں۔ اس کے لیےکوئی جلسہ جلوس نہ کریں، کوئی نعرے نہ لگائیں بلکہ کوئی عملی کام کریں۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار ایسی تنظیمیں موجود ہیں ۔جنہوں نے تعلیم کی فلاح میں بےشمار اور بہت ہی باکمال کام کیے ہیں لیکن ابھی اتنا کام نہیں ہوا۔ ہمارے سامنےغزالی ایجوکیشن ٹرسٹ ،دی سٹی فاؤنڈیشن اورکرسچن فاؤنڈیشن کی مثالیں ہیں اورکس طرح یہ بےشمار ادارے کام کررہے ہیں۔
تعاون فاؤنڈیشن نے بھی یہ پروگرام شروع کیا ہے،
تعلیم سب کے لیے ہے
Make Pakistan Hundred Percent Literate
یہ ہم سب کا نعرہ ہے۔ ہمارا بھی یہی نعرہ ہے ہم اس کے لیے ایک عملی کام کرنے جا رہے ہیں۔ وہ کام یہ ہے کیا ہم میں سے ہر کوئی اپنے اوپر کسی ایک کی، دو کی یا چار کی ذمہ داری لے اور اسے نبھائے ۔ سب سے پہلے میں آپ کے سامنے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں انشاءاللہ العزیز چند بچوں کی ذمہ داری ضرور لوں گا، پہلے بھی لی ہوئی ہے اور بھی لوں گا۔
آئیے مل کر یہ طے کریں ریاست اپنی جگہ پر بہت کام کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود بے شمار بچے ہیں، جنہیں سکول جانا نصیب نہیں ہوتا ،ان میں والدین کی غفلت بھی ہے، سکول کا نہ ہونا بھی ہے، اور ایک معاشی مجبوری بھی ہوسکتی ہے۔ ہمیں چاہیے اس مسئلےمیں بھی اپنا حصہ ڈالیں۔
تنقید اپنی جگہ ضرور کرنی چاہیے اس سے انکار نہیں بلکہ اس کے اپنے فوائد ہیں۔لیکن کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ہم اپنا حصہ بھی ڈالیں، اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں۔ آئیں اس یومِ خواندگی کےموقع پر یہ وعدہ کریں کہ ہم کچھ بچوں کو بھلے دو ہو یا چار ہو ان کو گلی محلوں سے اٹھا کر ضرور سکول بھیجیں گے اور کم از کم ان کو اتنی تعلیم ضرور دلوائیں گے کہ وہ ایک خاندان کا فرد کہلا سکیں۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان