Taawun

کیا ہر سال سیلاب کی تباہ کاریاں ہمارا مقدر ہے؟

نشر مکرر: سال 2020 میں سیلاب بارے چئیرمین تعاون فاؤنڈیشن ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ کی ایک تحریر

“کیا ہر سال سیلاب کی تباہ کاریاں ہمارا مقدر ہے؟ بچاؤ ممکن ہے”

سیلاب ہر سال آتے ہیں کبھی کم کبھی زیادہ۔ اس سال بھی سیلاب آئے بارشیں بھی ہوئیں،سندھ میں بھی ہوئیں، چترال کےاندر بھی یہ واقعات پیش آئے اور ایک بہت بڑا حصہ بلوچستان کا بھی زیرِ آب آیا۔
میری اس موضوع پرسیداحسان اللہ وقاص صاحب سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ میں چند سال پہلےانگلینڈ میں کسی چیریٹی آرگنائزیشن کے دفتر میں گیا تو وہاں پہ ایک چارٹ لگا ہوا تھا۔ اس چارٹ میں انہوں نے بتایا ہوا تھا کہ اس جگہ پر جہاں پہ اس سال سیلاب آیا ہےدس سال پہلے بھی یہاں سیلاب آیا تھا، اور اسی جگہ پندرہ سال پہلے بھی آیا تھا۔ وہ ہم سے ایک سوال کرتے تھے کہ جب آپ کو پتاہے کہ اس علاقے میں ہر دو چار سال کے بعد شدید بارشیں ہوتی ہیں ،تو آپ اس کا انتظام کیوں نہیں کرتے؟ کیوں نہیں آپ وقت سے پہلے سوچتے؟ کہ اتناپانی اگر آئے گا تو پھر ہم اسےکیسے نکالیں گے؟ اس کے لیے کوئی سیم نالے چاہیں ، کوئی برساتی نالے چاہیے، کوئی دریا چاہیے،یا کچھ اور چاہیے۔ ایسا کیوں نہیں ہے؟
چند دن پہلے مجھے بلوچستان جانے کا اتفاق ہوا۔ہم چار دن بلوچستان میں رہے۔خضدار اور جل مگسی کے علاقے میں اور اس کےعلاوہ بولان کے کچھ علاقوں کے اندر بھی سیلاب نے کافی تباہی مچائی۔ آپ یقین کریں میرے اب بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔جب میں واپس آکر سوچتا ہوں کہ کس طرح سے دیہات کے دیہات ختم ہوگئے، اور لوگ ڈیروں پر رہ رہے تھے۔ظاہر ہے یہ پنجاب کی طرح کےبہت بڑے گاؤں نہیں ہیں۔ لوگ ڈیرے کے اردگرد ،یا ان کے پاس جوبھی جگہ تھی، جہاں پر چار گھر تھے،چاروں طرف پانی ہے، کوئی کشتی میں کوئی آرہا ہے ، کوئی پانی میں پیدل چل کے آرہا ہے ، جانوروں کاچارہ نہیں ہے۔
میں اس پر صرف اتنی سی بات کہنا چاہتا ہوں ۔دنیا سو سوسال پہلے سے کچھ انتظام کرتی ہے۔کہ اچھا پچھلے سال یہ معاملہ ہواتھا تو اس سال اس معاملے سے ہم کیسے بچ سکتےہیں؟ یہ سیلاب آتا ہے،ہر سال آتا ہے ، ہمارا کروڑوں، کھربوں کا نقصان کر کے جاتا ہے، اور سینکڑوں جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ،مال مویشی ختم ہو جاتے ہیں ،تو ہم اس کا علاج کیا کریں؟ اگر ہم نے یہ علاج نہ سوچا تو یہ سیلاب اس سال آیا ہے،اگلے سال پھر آئے گا ، پھر یہی تباہی لائے گا،ہم پھر اتنےنقصان کریں گے، اور شاید ایک سال کانقصان بھی اس پانی کو ٹھیک طریقے سے نکالنے کے لیےبھی ہمارے لیے زیادہ ہو۔اوراس طرح سے خرچہ کم آئے گا نقصان زیادہ کریں گے۔
یہ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے اپنے گلی محلوں کے اندربھی ہیں، چھوٹے شہروں میں بھی ہیں، بڑے شہروں میں بھی ہیں، اب جھل مگسی میں ایک سو پچاس کلومیٹرطویل فاصلے کے اوپر پھیلےہوئے ایک بڑے رقبہ پر پانی کھڑا ہے اور بہت تھوڑی مقدار میں وہاں سے پانی نکل رہا ہے۔ اندازہ یہ ہے جھل مگسی کے ارد گرد سے پانی کو نکلنے میں ایک مہینہ لگے گا ۔ ایک مہینے میں کتنا مچھر پیدا ہو گا؟ کتنی مکھی پیدا ہو گی؟ کتنےہیپاٹائٹس کےمسائل پیدا ہوں گے؟ اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ہم کیوں یہ نہیں سوچتے کہ سیلاب نے اگلے سال بھی آنا ہے تو آج اس کا بندوبست کریں۔
یہ سوچ تین سطحوں پرہونی چاہیے۔ پہلی سوچ ان لوگوں کو ہونی چاہیے جو اس جگہ پہ بیٹھے ہیں، دوسری سوچ مختلف آرگنائزیشنز ، تنظیموں کو ہونی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو یہ شعور دیں کہ آپ نے یہ کام کرنا ہے، اور تیسری حکومتی سطح کے اوپر ہونی چاہیے۔ جب ہم وہاں پہ بیٹھے تھے تو مگسی خاندان کی ایک بہت ہی معزز خاتون بھی ہمارے ساتھ تھی۔ انہوں نے ان لوگوں سے کہا کہ میرے بھائیوں یہ بتاؤ کہ جب آپ نے یہ گھر بنائے تھے تو اردگرد کی مٹی اٹھا کر وہاں پہ گڑھے بنائےاور اس مٹی سےاپنے گھر بنالیے۔اب جب پانی آیا گھر تو آپ کے بچ گئےلیکن اردگرد کے جتنے گڑھے تھےوہاں پر پانی کھڑا ہے۔ اگر آپ یہ مٹی کہیں دور سے اٹھا کر لاتےتو کم از کم آپ کے گھرتو بچ جاتے ۔ بڑی سادہ سی بات تھی کیوں سمجھ نہیں آئی؟
آخر میں ایک مثال سے اپنا موقف واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔ ایک صاحب نے کسی کو ملازم رکھنا تھا تو اس شخص کی ساری باتیں اس سے طے ہوگئی۔ یہ کوئی بہت بڑا فارم تھا اور ایک بوڑھا آدمی اس کا مالک تھا، اس کو کوئی نوجوان آدمی چاہیےتھا جو ان کے جانوروں کی ،چیزوں کی دیکھ بھال کرے۔ جب اس نوجوان آدمی سے تنخواہ اور دوسرے سارے معاہدے طے ہو گئے تو اس نے آخر میں کہا کہ میری ایک شرط ہے۔ بزرگ نے کہا کیاشرط ہے؟ اس نے کہا کہ شرط میری یہ ہے کہ شدید طوفانی رات کے اندر جب بہت شدید ہوائیں چل رہی ہوں،بارش ہو رہی ہوں، پتا نہیں کیاکچھ ہو رہا ہو گا جس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ آپ مجھے سوئے کو نہیں اٹھائیں گے۔ وہ بزرگ بڑے پریشان ہوئے۔انہوں نے کہا یہ کیا بات ہوئی؟ اسی دن تو آپ کی ضرورت ہے۔ اس نے کہا اگر یہ شرط منظور ہے تو ٹھیک ہے ورنہ میں کام نہیں کرتا اوربزرگ نے مجبوراً یہ شرط مان لی۔
ایک رات جب شدید طوفان آیا اور اس طرح کے حالات پیداہوئے۔ وہ بزرگ بھی اٹھے جا کر اس ملازم کواٹھانے کی کوششیں کی۔ جب اس کو اٹھایا تو اس نے کہا کہ میرا آپ سے معاہدہ ہے۔ ایسے حالات میں آپ مجھے نہیں اٹھائیں گے۔وہ بزرگ بڑے پریشان ہوئے انہوں نے منت سماجت بھی کی۔ لیکن اس نے کہا نہیں میری شرط یہی ہے۔ اس نے کہا میں نہیں اٹھوں گا،چاہے نقصان ہو جائے ، جو بھی ہوتا ہے ہو جائے ۔ بزرگ بیچارے مایوس ہوئے وہ خود ہی چلے گئے۔ جب وہ گئے تو انہوں نےدیکھا کہ ان کے جانور اتنے خوبصورت طریقے سے اور اتنے محفوظ طریقے سے بندھے ہوئے تھے، ان کی ساری چیزیں اناج ، چارہ وغیرہ وہ اتنے خوبصورت طریقے سے پیک تھا ،محفوظ تھا کہ اس سے بھی شدید طوفان یا بارش،آندھی آتی تو کوئی نقصان نہیں ہونا تھا۔ یہ اس لیے تھا کہ اس نوجوان نے پوری توجہ اور ہنگامی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ طے کیا تھا کہ یہاں پر کتنا بڑےسے بڑاطوفان آ سکتا ہے، اور اس سے بچنے کے لیے کتنا حفاظتی انتظام کیاجا سکتا ہے۔ وہ حفاظتی انتظام کرکے سویا پھر طوفان کی راتوں میں اسےاٹھنا نہیں پڑا۔
آئیں ہم بھی حفاظتی انتظام کرنے کی کوشش کریں۔ تاکہ ہم طوفان کے دنوں کے اندر مارے مارے نہ پھریں اوراپنا نقصان نہ کریں۔

ڈاکٹر محمدمشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان 

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *