تبدیلیاں تو ہمارے ہاں ہر روزآتی ہیں، جو معاشی، معاشرتی کے ساتھ ساتھ سائنسی بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو 1950ء کی دہائی میں جب ریڈیوآیا تو عام لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ ہمارے گھروں میں بھی اسے قبول نہیں کیا گیا۔ جب ٹی وی آیا تو ہم نے باقاعدہ اس پر بھی بے شمارگفت و شنید کی۔ یہ تک کہا جانے لگا کہ ٹی وی کی وجہ سے فحاشی و عریانی عام ہو جائے گی۔ پتا نہیں کیا کیا کچھ ہوجائے گا؟ پھر جب ٹی وی سے بات آگے چلی اور انٹر نیٹ آیا ، پھر ایک دفعہ اس کے منفی پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی گئی لیکن انٹر نیٹ نے اپنی جگہ بنا لی۔ اب اس کی دسترس سے کوئی مسجد بچی نا ہی کوئی گھر۔ اب یہ بات نہیں ہو رہی کہ انٹرنیٹ غلط ہے بلکہ یہ بات ہو رہی ہے کہ اسے کیسے استعمال کیا جائے؟ اسی طرح کئی اور معاشرتی تبدیلیوں کی بات بھی کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پربچیوں کا ایک بڑی تعداد میں پروفیشنل اداروں میں تعلیم حاصل کرنا اور سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کام کرنا۔ کیا ا س تبدیلی کو روکنا ممکن ہے؟ میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے۔اسی طرح کی کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔
میں اس بات کا قائل ہوں کہ ہمیں ہر تبدیلی کا استقبال کرنا چاہیے۔ یہ اتنی ضروری بات ہے جس کا کوئی اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ آپ تبدیلی کو روک نہیں سکتے۔ کیا ہم روک سکتے ہیں کہ ہمارے محلے، شہر ،گھروں یا شہروں کے اندر انٹرنیٹ بند ہو جائے، ممکن نہیں ہے۔ آنے والے دور میں کیا ہوگا؟ ہم اسے روک نہیں سکتے۔ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب ہے کہ ہمیں اس تبدیلی کا استقبال کرنا ہوگا۔ میں اس بات پر ایک سوچی سمجھی اورپختہ رائے رکھتا ہوں۔ دنیا بھر نے ایسا ہی کیا ہے۔ جب ہم کسی ٹیکنالوجی کو آنے سے روک نہیں سکتے تو پھر یہی بہترین راستہ ہے کہ ہم اس کا استقبال کریں، اسے خوش آمدید کہیں ۔جب آپ اسے خوش آمدید کہیں گے، استقبال کریں گے تو پھر خود بخود آپ اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لیں گے۔ جب آپ اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالیں گے تو یقینی طور پر وہ تبدیلی آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پہ انٹر نیٹ آنے سے پہلے مسجد کے خطیب صاحب اپنا خطبہ اپنے سامنے بیٹھے چند لوگوں کو سنا سکتے تھے۔ اس کام کے لیےایک مسجد درکار تھی۔ پھر اس میں سپیکر آگیا چار اور لوگوں کو اس میں شامل کیا گیا۔ اب ہماری گلی، محلے کے خطیب صاحب اپنے خطبے آن لائن فیس بک پر نشر کرتے ہیں۔ اب ان کا خطبہ چار سو سے پانچ سو لوگ نہیں سنتے، جو وہاں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں، بلکہ وہ ریکارڈ ہو رہا ہوتا ہےاور آن ایئر چل رہا ہوتاہے اور اسے ہزاروں لاکھوں لوگ دیکھ سکتےہیں۔ بلکہ بار بار دیکھ سکتے ہیں، سن سکتے ہیں۔اس کا مطلب ہوا کہ تبدیلی کو روکا نہیں گیا بلکہ اسے خوش آمدید کہا گیا۔ اس کا استقبال کیا گیا اور اسے اچھے طریقے سے استعمال کیا گیا۔ یہ میں نے آپ کو ایک مثال دی ہے ۔ اسی طرح کی ٹیکنالوجی کی بے شمار مثالیں اوربھی موجود ہیں۔ایک مثال پانی کے کنوئیں کی بھی ہے۔ ہم یہ کہے کہ نہیں ہم تو یہی کام کریں گے۔ ہم نے تو پانی کا بندوبست کرنا ہے اور کنواں ہی لگانا ہے۔اب کنویں کی جگہ پر اگر موٹر پمپ آگیا ہے تو ہمیں اس کا استقبال کرنا چاہیے۔ اب اگر کمپیوٹر آگیا تو ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہم ہاتھ سے لکھیں گے ہم کمپیوٹر سے کیوں نہیں لکھیں گے؟ اس کا استقبال کریں گے اور اس کو اپنے کام کے لیے استعمال کریں گے۔جب کوئی چیز تبدیل ہوتی ہے تو پھر وہ ایک چیز نہیں ہوتی بلکہ پورا ماحول تبدیل ہونا شروع ہوتاہے۔ ریڈیو آیا تو ریڈیو کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے اندر سنگر پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ موسیقار آنے شروع ہو گئے۔ رنگا رنگ قسم کے پروگرام بننےشروع ہو گئے۔ ہر جگہ تبدیلی نظر آنے لگی۔ جب ٹی وی آیا تو پھر بے شمار ادا کار بھی پیدا ہوئے۔ فلم ، ڈرامہ بننا شروع ہو گیا۔ بے شمار لوگ اس شعبے میں آئے۔ ہم نے ایک بڑی تبدیلی کا مشاہدہ کیا۔ اب انٹرنیٹ آیا تو ہر چوک کے اندر انٹرنیٹ کی دکان ہے۔ کوئی دفترایسا نہیں جہاں آپ کو انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہ ہوں ۔آپ کی جیب میں ہر وقت ایک موبائل ہے جو دنیا سے آپ کو رابطے میں رکھتا ہے۔ یہ سب ایک مسلسل تبدیلی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ خواتین و حضرات ، یہ ایک مکمل جامع قسم کی تبدیلی ہے۔ یہ مکمل جامع تبدیلی ہمیں بھی تبدیل کرے گی۔ تو بجائے اس کے کہ ہم پیچھے ہٹیں، آگے بڑھ کر اسے قبول کیوں نہ کریں ۔پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیں۔ ٹیکنالوجی بذاتِ خود کوئی بری چیز نہیں ہے۔ برا یا اچھا اسے اس کا استعمال بناتا ہے۔ انٹر نیٹ سے ایک مثبت تبدیلی کا کام لیں یا کسی منفی سرگرمی کے لیے استعمال کریں، سب کچھ استعمال کرنے والے پر منحصر ہے۔ تو کیوں نہ ہم وقت سے پہلے اپنے آپ کو اور اپنی سوچ کو اس کے مطابق کریں اور خود اس کا استقبال کریں اور آگے بڑھ کر اس تبدیلی کو خوش آمدید کہیں۔ اسے اپنے نیک اور اچھے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
یہ آن لائن سیل کا کام آج سے نہیں ہے، یہ بیس تیس سال پہلے شروع ہو چکا تھا ۔ اور پوری دنیا کے اندر آن لائن کام چل رہا تھا۔ لوگ گھر بیٹھے دوائی ، کتابیں منگواتے تھے ۔ مجھے خود اس کا تجربہ ہے یہ بیس پچیس سال پرانی باتیں ہیں، لیکن ہمارے ہاں نہیں تھی۔ ہمارے ہاں ابھی بھی دکان ہے ،دکان کا کرایہ ہے، دکان کے بل ہیں، دکان مہنگے علاقے میں ہے،مال میں ہے، اس کے اپنے اخراجات ہیں، پھر جو لینے جائے گا اس کا خرچہ ہے جو لے کر واپس آئے گا ،اس کا خرچہ ہے،اب یہ سارے اخراجات کم ہو گئے ہیں۔ اب آپ آن لائن چلے گئے ہیں۔ ہم اس میں دیر سے آئے ہیں۔ جو دیر سے آتا ہے، اسے اچھی چیز نہیں ملتی ۔ لوگ پہلے سےجم جاتے ہیں کاروبار جما لیتے ہیں۔ اس لیے صرف میں نہیں بلکہ ہر ذی شعور شخص یہی کہے گا کہ تبدیلی کا استقبال کرو۔ تو میں اس سے آگے کی بات کہتا ہوں ، اس کا استقبال بھی کرو اور اسے بہترین طریقے سے استعمال بھی کرو۔میرے خیال میں جو بھی تبدیلی کا آگے بڑھ کر استقبال کرتا ہے وہی اسے اچھے طریقے سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اوردوسروں سے کہیں آگے نکل جاتا ہے ۔۔۔۔یہ خواہ نظام تعلیم ہو، نظام معیشت ہو، مینجمنٹ کے طریقے ہوں، نیا سافٹ وئیر ہو، نیا موبائل ہو، نیا طب کا طریقہ ہو۔۔۔ غرض کچھ بھی ۔۔۔ تبدیلی کا راستہ روکنا ممکن نہیں ۔۔۔ اس کے استقبال اورآگے بڑھ کا استعمال ہی میں بہتری ہے۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان