معاف کرنا آسان۔۔۔بھول جانا مشکل
بھول جانے میں ہی عافیت ہے!
میں نے ایک انگریزی کہاوت پڑھی اور اس پر کافی دفعہ سوچا اور عمل بھی کیا اور اس کے عملی طور پر بھی فوائد بھی دیکھے ۔ وہ کہاوت کچھ یوں تھی کہ ایک شخص نے اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے سے کہا کہ
’’میں معاف تو کر سکتا ہوں لیکن بھول نہیں سکتا‘‘
یہ حقیقت بھی ہے کہ زندگی میں جب بھی کوئی ایسا معاملہ ہو جائے ، دکھ پہنچانے والا شخص معافی مانگ لے تو ہم اسے معاف بھی کر دیتے ہیں لیکن اس شخص کی کی ہوئی زیادتی کو بھولتے نہیں ۔
تو کیا معاف کرنا کافی تھا؟
معافی تو اس شخص کے لیے ہے، جس نے کوئی بات غلط کی، اس نے معافی مانگی اور ہم نے اسے معاف کر دیا۔ اب وہ شخص تو مطمئن ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔ اس کے نزدیک تو معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ وہ تو یہ سمجھے گا کہ مجھ سے غلطی ہوئی اور اس غلطی کے نتیجے میں مجھے معاف کر دیا گیا۔ اس کے نزدیک تو بات ختم ہو چکی ہے۔
لیکن اگر آپ اسے نہیں بھولتے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے نزدیک یہ معاملہ ختم نہیں ہوا اور وہ بات تو آپ کے دماغ میں تو محفوظ ہو گئی ہے۔ جب بھی وہ شخص یاد آئے گا یا اس کا نام آئے گا یا اس کی کوئی بھی بات آپ کے سامنے آئے گی، تو آپ کو فوری طور پر یاد آئے گا کہ اچھا یہ وہ شخص ہے جس نے میرے ساتھ زیادتی کی تھی۔
اس کا حل کیا ہے؟
اگر میں یہ بیان کروں کہ بھول جانا بہت ہی مفید بات ہے ،بہت ہی قابل عمل ہے اور آپ کے لیے بے حد مفید ہے۔ آپ کی ذہنی صحت کے لیے ایک بہترین نسخہ ہے تو شایدآپ یہ کہیں گے کہ’’ بھول جانا‘‘ یہ کیسی بات کر رہے ہیں آپ؟ کیوں بھولا جائے؟ ہم ایسے بھول تو نہیں سکتے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنے دماغ سے منفی چیزوں کو نکالنا نہ سیکھا، تو ہم اپنا ہی نقصان کر رہے ہوں گے۔ جس شخص نے زیادتی کی تھی، اسے کچھ نہیں ہوگا۔
ایسی صورت حال میں منفی خیالات کو دماغ سے نکالنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔
ایسی باتوں کو نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم انہیں بھول جائیں۔ اگر ایسا نہ کیا تو ہمارا دماغ منفی چیزوں کا بہت بڑا گھر بن جائے ۔
دماغ کی ایک خاص صلاحیت ہے جیسے کہ کمپیوٹر کی خاص صلاحیت ہے۔ اب اگر اس کی صلاحیت سے زیادہ کام لینے کی کوشش کی جائےگی تو یہ خودبخود کام کرنا چھوڑ دے گا۔ بالکل اسی طریقے سے جو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا دماغ بھی بے شمار چیزوں، کہانیوں، واقعات، لین دین کے معاملات اور غمی خوشی کو محفوظ کرتا ہے۔ ہمارا دماغ ایسے تمام تر واقعات کو محفوظ کرتا رہتا ہے اگر ہم اسے نکالتے نہیں تو وہ ذخیرہ بہت بڑھ جائے گا اور اتنا بڑھ جائے گا کہ آپ کوئی مثبت کام کرنا چاہیں تو وہ نہیں کر پائے گا اور اس کی رفتار بھی بہت کم ہو جائے گی۔ کمپیوٹر کی زبان میں ہمارا دماغ اوور لوڈ ہو کر ہینگ ہو جائے گا۔
اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ بھول جانا، معاف کردینے سے بھی بڑا کام ہے۔ معاف کرنالازمی ہے۔ معاشرتی زندگی کے لیے ضروری بھی ہے۔ غلطی انسانوں سے ہوتی ہے، جسے معاف بھی انسان ہی کرتے ہیں۔ میرے خیال میں بھول جانے کی نسبت معاف کرنا بہت آسان ہے ۔ اصل مسئلہ اس وقت حل ہو گا جب ہم اسے بھولیں گے۔
میں نے ایک مرتبہ ایک صاحب کو یہ کہتے سنا کہ میرے لیے انتقام لینا بہت آسان ہے لیکن کسی کو معاف کرنا اس سے زیادہ مشکل ہے۔ میں انتقام تو لے سکتا ہوں معاف نہیں کر سکتا، کیونکہ معاف کرنا کوئی آسان کام نہیں لیکن میں تو اس سے بھی اگلی بات کر رہا ہوں کہ معاف تو کرنا ہی کرنا ہے لیکن آپ اسے بھول جانے کی بھی کوشش کریں۔ اگر آپ اسے نہیں بھولیں گے تو یہ بات آپ کے دماغ میں رہے گی اور بات مزید بڑھتی چلتی جائے گی اور کبھی اسے ختم یعنی ڈیلیٹ delete نہیں کیا جاسکے گا۔
مثال کے طور پر جیسے ہم ایک کمرے میں بیٹھے ہیں۔ اس کمرے میں بہت ساری چیزیں آ رہی ہیں روزانہ کے حساب سے کچھ جا بھی رہی ہیں لیکن اگر آپ یہاں سے چیزوں کو نکالتے نہیں تو یہ ایک سٹور بن جائے گا اور اس میں شاید چلنے کی جگہ بھی نہ رہے۔یہی حال ہمارے دماغ کا بھی ہے۔
زندگی میں معاف تو ہم آسانی سے کر دیتے ہیں لیکن بھولتے نہیں ہیں۔ آپ یقین کریں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بہت ہی مشکل کام ہے کہ کسی شخص کے ساتھ ہمارا معاملہ ہوا ہو اور ہم اس شخص کی اس زیادتی کو بھول جائیں۔ بہت مشکل کام ہے لیکن میں آپ کو پورے صدق دل سے یہ بات کہتا ہوں کہ اگر آپ نے بھولنے کی عادت نہ اپنائی تو آپ اپنی ذہنی صحت کا نقصان کر بیٹھیں گے۔
آئیں کوشش کریں کہ غلطی نہ ہو۔ ہم سے نہ ہو کسی اور سے نہ ہو اگر کسی اور سے ہمارے ساتھ کوئی زیادتی ہوگئی ہو، تو آپ اسے معاف کر دیں۔ یہ تو پہلا مرحلہ ہے اور پھر اسے بھول جانے کی کوشش کریں جیسے وہ واقعہ کبھی ہوا ہی نہیں، بس ٹھیک ہے ، وقت گزر گیا ہے۔ وہ جو ایک کہاوت ہے ؛
رات گئی بات گئی!
مٹی پاؤ اور بات کو ختم کرو!
ایسا کرنے سے انشاءاللہ العزیز آپ کی ذہنی صحت میں اضافہ ہوگا اور آپ کے ذہن کو زیادہ کام کرنے کی ہمت اور توفیق ملے گی اور انشاءاللہ العزیز آپ بہت سی منفی چیزوں کا جو بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔ اسے اتار کر ایک طرف رکھنے کے قابل بھی ہوجائیں گے۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان