دنیا میں دو طرح کی سزائیں ہیں۔ ایک وہ سزا ہے جس کا ذکر مذہب میں ہے۔ دوسری سزا جس کا ذکر کسی ملک کے آئین کے اندر ہے ،کہ فلاں جرم کی یہ سزا ہے۔ اس پر توظاہر ہے یقینی طور پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ یہ عدالتوں کا معاملہ ہے ۔ اگر عدالت سمجھتی ہے کہ بندہ قصور وار ہے تو اسے سزا دیتے ہیں، نہیں قصور وار تو اسے معاف کر دیتے ہیں۔
بعض اوقات ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پہ سزادیتے ہیں۔ مثلا ً سکول میں یقیناً آپ نے بھی سزا بھگتی ہوگی ،میں نے بھی بھگتی ہے،آج کل بھی بچے بھگت رہے ہیں۔ کہ بچہ سکول سے لیٹ ہوا تو باہر کھڑا کر دیں، دھوپ میں کھڑا کر دیں وغیرہ ، وغیرہ۔ جیسے پرانے وقتوں میں استاد صاحب کان پکڑوا دیتے تھے اور کچھ بچوں کو پیچھے کھڑا کر دیتے تھے، سبق یاد نہیں ہوا بینچ پہ کھڑا کر دیتے تھے، تشدد بھی ہوتا تھا ۔فیکٹریز کے اندر بھی یہی ہوتا ہے ،کوئی مزدورپندرہ منٹ لیٹ آیا اس کی آدھے دن کی چھٹی کاٹ لی جاتی ہے، تین دن لیٹ آیا تو ایک دن کی غیرحاضری لگ جاتی ہے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ ہم کئی بار چھوٹی چھوٹی باتوں پر کسی نہ کسی کو سزا دیتے ہیں۔ اپنےگھروں میں بچوں کو سزا دیتے ہیں۔ آج آپ نے سبق یاد نہیں کیا، آج آپ کو آئس کریم نہیں ملے گی اس طرح کی بے شمار سزائیں ہیں۔
میں جو بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ تھوڑی سی مختلف ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ کیا سزا دینا مقصد تھا؟ یقینی طور پر سزا دینامقصد نہیں تھا، آپ کا مقصد اصلاح تھا۔ اگلا سوال اگرآپ سے یہ پوچھوں تو کیا سزا دینے سے اصلاح ہو گئی؟ تو آپ یقینا ًیہ کہیں گے کہ شاید ہوئی یا شاید نہیں ۔ اس طرح کی روز روز کی سزا سے بچہ ڈھیٹ ہو جائے گا اور وہ کہے گا اب مزے سے سکول جاؤ کوئی مسئلہ نہیں ہے، سزا تو ملنی ہے۔ ایک آدمی کہتا ہے میں فیکٹری سے پندرہ منٹ لیٹ ہو گیاہوں ، آدھےدن کی دیہاڑی بھی کٹے گی، کیوں نہ لنچ کے بعد ہی جاؤں ، کم از کم آدھا دن میں آرام سے رہوں گا۔
یہ ایک عام سی بات ہے ۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ شاید اس سے بھی اصلاح ہو جاتی ہے لیکن میں یہ بات پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتا ۔ البتہ میں یہ کہتا ہوں کہ اس کی بجائے ہم غلطی کرنے والے فرد کو آگاہی و شعور اور ادراک دیں کہ آپ کی اس غلطی کی وجہ سے کیا اور کتنا نقصان ہوا ہے؟ آپ کا، کمپنی کو ،سکول میں ، پڑھائی کا ،پروڈکشن اورمارکیٹنگ کا ، کس کس کا کتنا نقصان ہوا ہے؟ آپ دس منٹ لیٹ آئے ہیں تو ہم آپ کو کیا سزا دیں؟ لیکن پچاس لوگ آپ کا انتظارکر رہے تھے اگرپچاس کو دس سے ضرب دے دیں تو پانچ سو منٹ کا نقصان ہوا ہے۔ آپ فیکٹری میں لیٹ آئے ہیں تو آپ کے آنے سے سب چیزیں مثلاً کمپیوٹر چلناتھا ، پروگرام چلنا تھا ،پھر ہم نے کسی کوجواب دینا تھا، پھر پروڈکشن شروع ہونی تھی، آپ دیر سے آئے ہیں تو یہ نقصان ہوئے ہیں۔
اسی طرح سے آپ اس بچے کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ دیر سے آئے ہیں آپ کلاس میں بیٹھ تو جائیں لیکن یاد رکھیں کہ جو پہلے دس منٹ ہم نے پڑھائی کی ہے، آپ اس پڑھائی سے محروم ہوگئے ہیں۔ اگر اسی مضمون میں سے کوئی سوال آگیا تو یقینی طور پر یہ آپ کا نقصان ہو گا۔
میرا خیال یہ ہےکہ یہ شعور دینا، یہ آگاہی دینا سزا سے بہت بہتر ہے۔
جو بات مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ کسی بھی فرد کو وقت سے پہلے بتا دیں کہ لیٹ آنے کی وجہ سے یہ یہ نقصان ہو سکتے ہیں۔ میں آپ کو پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ لوگ لیٹ آنےیا غلطی کرنے میں تھوڑی سی احتیاط ضرورکریں گے۔ انسان ہے غلطی تو ہو سکتی ہے۔ لیکن وہ مزید احتیاط کریں گے کہ کسی طرح سے وہ غلطی دوبارہ نہ ہو۔
آئیں سزا کی بجائے غلطی سے ہونے والے نقصانات کے متعلق آگاہی پھیلائیں ۔ میں پھرپورے وثوق سے کہتاہوں میرا تجویز کردہ طریقِ کار ، سزا (و ہ مالی ہو یا جسمانی یا نفسیاتی ) سے زیادہ مؤثر طریقہ کار ہے اور اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ بچہ یا فرد غلطی نہیں کرے گا یا غلطی کم کرے گا۔ اگر غلطی اس سے ہو گی تو اس کا وہ مداوا کرنے کی کوشش کرے گا۔
سزا سے ہم بڑھ کر آگاہی کی طرف چلے جائیں۔ امیدہے کہ اس بات پرآپ ضرور غور کریں گے۔
تعاون فاؤنڈیشن یہ پیغام لے کر آپ سب کے سامنے ہے کہ آئیں مل کر ادراک و شعور کوآگے پھیلائیں۔ تاکہ ہم روایتی طریقوں سے ہٹ کر نئے انداز سے اپنے دماغوں اور ذہنوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنےآپ کو ایک طریقے سے اچھے معاشرے کا فرد بنانے کی کوشش کریں۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان