Afghanistan Series

کابل سیریز: کابل کا محل وقوع اور تاریخ (قسط نمبر 5)

کابل کا محل وقوع:

اگر آپ افغانستان کے نقشے کو دیکھیں تو آپ د یکھ سکتے ہیں کہ کابل کے مشرق میں پشاور جنوب مشرق میں کوئٹہ، جنوب میں زاہدان اورقندھارشمال مغرب میں مزار شریف اور شمال میں تاجکستان واقع ہے۔ کابل افغانستان کے شمال مشرق میں پاکستانی سرحد سے صرف اڑھائی سوکلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جبکہ افغانستان کے دیگر شہروں سے اس کا فاصلہ ایک ہزار کلومیٹر سے بھی زائد ہے۔ مثلاً کابل سے ہرات کا فاصلہ آٹھ سو کلومیٹر سے بھی زائد ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کابل افغانستان کے ایک کونے میں واقع ہے۔

کابل افغانستان کا دارلخلافہ ہے۔جس کی وجہ سے یہ ایک اہم شہر ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ یہ مشرق وسطی سے برصغیر میں آنے والے لوگوں کےلیے ایک گزرگاہ بھی ہے ۔گزر گاہ ہونے کی وجہ سے اس شہر کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اسی وجہ سے یہ شہر آباد ہوا ہوگا۔

اس وقت شہر کی آبادی تقریباً پچاس لاکھ ہے۔آبادی میں اضافہ کی وجہ پچھلی چند دہائیوں سے جاری جنگ ہے۔دیہات کے اندر لوگ خود کو زیادہ محفوظ نہیں سمجھتے، اس لیے وہ شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ کابل سطح سمندر سے تقریباً چھ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔اس وجہ سے یہاں کا موسم کافی سرد ہوتا ہے۔ سردیوں میں برف باری بھی ہوتی ہے، البتہ گرمیوں میں گرمی کی شدت زیادہ نہیں ہوتی۔

یہ شہرکوہ ہندوکش کی تنگ وادی میں آباد ہے اس کے چاروں طرف دور دور تک پہاڑ ہی پہاڑہیں۔ یہاں سے ایک بڑی سڑک قندھار جاتی ہے ایک سڑک ہرات، ایک مزارشریف اور ایک سٹرک جلال آباد اور اس سے آگے پشاور کی طرف جاتی ہے۔ ایک اور سڑک گردیز کی طرف آتی ہے جو آگے چل کر خوست سے ہوتی ہوئی بنوں نکلتی ہے ۔گردیز سے دوسرا راستہ وزیرستان کی طرف نکلتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کابل شہر ایسے سنگم پر واقع ہے جہاں سے پانچ مختلف شاہراہیں نکلتی ہیں۔

جب ہم کابل میں داخل ہوئے تو میں نے اس بات کا بغور مشاہدہ کیا کہ کابل شہر کے ارد گرد چاروں طرف پہاڑ تھے اور پورا منظر ایک پیالے کی مانند لگتا تھا۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ کابل شہر میں ایک بڑی پہاڑی ہےجس کے دونوں طرف آبادی ہے، لیکن ایک طرف امیر لوگ آباد ہیں جبکہ دوسری طرف آبادی غریب لوگوں کی ہے۔

کابل تاریخ کے آئینے میں:

کابل شہر اس تصوّر سے بالکل مختلف تھا جو میرے ذہن میں تھا۔ شہر کا مرکزی حصہ کسی بھی لحاظ سے پشاور سے مختلف نہیں نظر آرہا تھا۔ میرے تصوّر میں کابل ایک قدیم عمارتوں پر مشتمل شہر تھا، لیکن یہ منظر میرے لیے حیران کن تھا۔ جب میں نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ کابل کی بار بار کی تباہی نے اس کی قدامت کوبہت حد تک محدودکر دیا ہے ۔ موجودہ شہر ایک نو تعمیر شدہ شہر ہے اور اس کی تعمیر جدید تقاضوں کے مطابق ہوئی ہے۔

کابل، جسے فارسی میں کیبول بھی کہتے ہیں، افغانستان کا قدیم زمانوں سے دارالحکومت ہے۔یہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا شہر اور افغانستان کا سیاسی اور معاشی مرکز بھی ہے۔تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شہر تین ہزار سال پرانا ہے۔ آغاز میں یہ شہربہت دور تک پھیلا ہوا تھالیکن اب اس کا بیشتر حصہ دریائے کابل کے شمال میں واقع ہے۔یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ افغان۔ روس جنگ جو 1979 ء سے 1992 ء تک جاری رہی، سے متاثرہ دیہاتیوں نے کابل کو نسبتاً محفوظ علاقہ جانتے ہوئی اس کی طرف ہجرت شروع کر دی جس سے ا س شہر کی آبادی میں قابل ذکر اضافہ ہوا۔

میرے خیال میں کابل میں زیادہ تر پشتون لوگ رہتے ہیں۔ لیکن جب کابل پہنچے تو دیکھا کہ اس شہر میں کئی اور طرح لوگ بھی رہتے ہیں۔ جس سے میری سوچ میں ایک واضح تبدیلی آگئی۔ ایک طرح سے میں خوش بھی ہوا کہ مجھے مختلف لوگوں سے ملنے کا موقع ملے گا۔ کابل میں پشتون اور تاجک کے علاوہ ازبک، ترکمن اور سکھوں کی ایک معقول تعداد رہتی ہے ۔ یہ بھی پتہ چلا کہ اس شہر میں ہندو برادری بھی ہے۔ اس سب کو دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اب یہ شہر صرف پختونوں کا نہیں ہے۔ یہاں پر پشتو کے علاوہ، فارسی اور دری زبان بھی بولی جاتی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں پر یہودی بھی رہتے تھے گو کہ ان کی تعداد بہت ہی کم تھی۔

ر ؤف روہیلہ صاحب اور دیگر ساتھی پشتو بول سکتے تھے لیکن اکثر جگہوں پر ہمارا واسطہ فارسی یا دری بولنے والوں سے پڑتا تو ہمیں بہت مشکل پیش آتی تھی، ایسے موقعوں پر اردو کام آتی تھی۔ میں نے ا س کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ کابل میں کافی عرصہ سے انڈین فلمیں بے حد پسند کی جاتی ہیں اور ان کا چلن عام ہے ،جس کی وجہ سے کابل کے لوگ بڑی آسانی سے اردو میں بات چیت کر سکتے ہیں۔ یہ وہ جادو ہے جو آج تک سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

جب میں کابل کی گلیوں میں گھوم رہا تھا، تومیں تصوّر ہی میں یہ دیکھ رہا تھا کہ یہ شہر جس کی بنیاد آج سے تین ہزار سال قبل رکھی گئی تھی، ہندوکش کے پہاڑوں کی ایک وادی میں واقع ہے اس خطے میں بدھ مت اور ہندو مت کے آثار اب تک ملتے ہیں۔اسے عرب فوجوں نے سب سے پہلے نویں صدی کے آخر میں فتح کیا۔اُس وقت پورا شہر ایک چار دیواری کے اندر تھا اور اس کا رقبہ بارہ ایکٹر تھا۔پھر چنگیز خان نے1221 ء میں منگول فوج کی مدد سے کابل پر حملہ کیا اور اسے بے حد نقصان پہنچایا۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ 1398 ء میں امیر تیمور نے اس شہر پر حملہ کیا اور بھرپور تباہی پھیلائی۔ امیر تیمور کے دور میں کابل ایک معروف تجارتی شہر کے طور پر ابھرااور اسے بہت اہمیت حاصل ہونے لگی ۔اہمیت کی وجہ امیر تیمور کی کابل کے فرمانروا کی بہن سے شادی تھی۔

شہنشاہ بابر نے 1504 ء میں اس شہر پر قبضہ کیا ا ور یہ مغل خاندان کا ابتدائی دارالحکومت بن گیا۔ یہ کابل کی آب وہوا کا پھل ہی تھا جس کی وجہ سے بابر کو شہر سے پیار ہوگیا۔ بعد میں مغلوں نے ہندوستان کو فتح کیا اور بابر کے جانشینوں نے اپنا دارالحکومت ہندوستان میں آگرہ، دلی، اور لاہور میں قائم کیا۔ اس کے باوجود کابل 1738 ء تک مغل سلطنت کی ایک علاقائی چوکی کے طور پر قائم رہا۔ مغل کبھی بھی اس علاقہ سے دست بردار نہیں ہوئے۔ یہ بات افغانوں کے اس دعویٰ کی نفی کرتی ہے کہ افغانستان پر کبھی کوئی غیرملکی قابض نہیں ہوا۔

کابل پر ایک وقت آیا جب اس پر ایرانی جنرل نادر شاہ نے قبضہ کیا۔ اس کے قتل کے بعد، عماد شاہ درانی اقتدار کی جدوجہد کے ذریعےحکمران بن کر ابھرا، اور اس کے بیٹے تیمور شاہ نے اپنا دارالحکومت کابل منتقل کردیا ۔ اس طرح اس علاقہ پر ایرانی لوگوں نے بھی قبضہ جمائے رکھا۔

اس شہر کے متعلق ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شہر انگریزوں کے لیے بھی بے حد اہم تھا۔ انھوں نے بھی اس شہر پر قبضہ کرنے کے لیے کئی حملے کیے۔ برطانوی افواج کے 1842 ء میں ایک چھاپہ مار حملے کے نتیجے میں بازار اور رہائشی املاک تباہ ہوگئیں جبکہ 1880 ء میں ہوئے دوسرے حملے میں بھی بے حد تباہی ہوئی۔ انگریز باوجود اپنی شدید خواہش کے اس علاقہ پر کبھی بھی مستقل قبضہ نہ کر سکے۔ ان کی حکومت صرف طورخم تک رہی۔ سکھوں نے بھی کوشش کی لیکن وہ بھی صرف جلال آباد تک ہی پہنچ سکے۔

ڈاکٹر محمد مشتاق  مانگٹ

تعاون فاؤنڈیشن پاکستان

نوٹ:مجھے ستمبر 2008 ء میں افغانستان جانے کا موقع ملا۔ میں اس وقت روٹری کلب مزنگ لاہور کا صدر تھا۔ مجھے پتہ چلا کے کابل میں ایک روٹری کلب کا پروگرام ہے۔ اسی سلسلے میں کابل جانا ہوا ، وہاں تین دن قیام کیا۔یاد رہے اس وقت افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی۔ ان تین دنوں کی رُوداد پیشِ خدمت ہے۔ باقی آئندہ قسط میں

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *