Afghanistan Series

کابل سیریز: کابل بیرونی طاقتوں کے قبضہ میں (قسط نمبر 6)

کابل بیرونی طاقتوں کے قبضہ میں:

روسی افواج نے 1979 ء میں کابل پر قبضہ کرلیا، اور دس سال تک کابل ان کا کمانڈ سینٹر رہا، بعد ازاں کابل کو خانہ جنگی نے بے حد نقصان سے دوچار کیا، پھر پاکستان کی جہاد افغانستان مہم اور مجاہدین کی جدوجہد کی وجہ سے 1989 ء میں کابل روسی قبضہ سے آزاد ہوا،1990 ء میں مجاہدین کے گروہوں میں لڑائی چھڑ گئی، آخر کار طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا۔2001 ء میں نائن الیون کا الزام افغانستان پر لگا کر امریکہ اپنے اتحادیوں (نیٹو) کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا، وہ تباہی مچائی کہ الامان الحفیظ۔

دلچسپ تاریخ اور داستاں:

الغرض کابل کی تاریخ نہایت دلچسپ ہے،اور یہ تاریخ چھ سو سال قبل مسیح تک پھیلی ہوئی ہے ،کابل پر ترکوں نے بھی حکومت کی،ساتویں صدی کے وسط میں عرب مسلمانوں نے حملہ کیا ،کئی حملے ناکام ہوئے لیکن بلا آخر نوویں صدی کے آخر میں مسلمانوں نے یہ شہر فتح کرلیا،امیر تیمور نے اس شہر پرتوجہ بھی دی،پھر بابر کے دور حکومت میں یہ دارالخلافہ بھی بنا اور مغل حکمرانوں نے اسے وسعت سے بھی نوازا۔تزک بابری میں اس شہر کا ذکر جابجا موجود ہے ، ماضی قریب میں ظاہر شاہ پھر داؤد خاں ،بعد میں مجاہدین اور اب امریکی اس شہر پر حاکم ہیں۔کیونکہ جو فوج کابل پر قابض ہوگئی تو گویا وہ پورے افغانستان پرقابض سمجھی جاتی تھی ،لیکن اس دور میں ایسا نہیں ہوا۔ کابل پر امریکیوں کا قبضہ ہے جب کہ بقیہ افغانستان پر افغانی طالبان کا قبضہ ہے۔

کابل میں سردیوں میں خوب سردی پڑتی ہے اور برف باری بھی ہوتی ہے، میرا مشورہ ہے کہ آپ کابل کی سیاحت کو جائیں اور اس کی تاریخ ضرور پڑھیں، اس سےآپ کی سیاحت کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔

روٹری کلب کابل:

کابل میں آج ہمارا دوسرا دن تھا۔ سب سے پہلی مصروفیت روٹری کلب افغانستان کی میٹنگ تھی، جس میں ہماری شرکت لازم تھی۔ روٹری کی روایت کے مطابق تلاوت کے بعد قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے۔ سب سے پہلے میزبانوں نے میزبان ملک افغانستان کا ترانہ پڑھا، اس کے بعد ہم چاروں نے پاکستان کا قومی ترانہ پڑھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارا قومی ترانہ کیونکہ فارسی میں ہے، اس لیے مکمل طور پر ہمارے میزبانوں کی سمجھ میں آرہا تھا۔

اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن ہمارا قومی ترانہ فارسی میں ہے۔

روٹری کلب دنیابھر میں پھیلا ہوا ہے۔دنیا میں اس کے بارہ ہزار سے زائد کلب کام کر رہے ہیں۔ امریکہ کے حملے کے بعد افغانستان میں بھی اسے منظم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے لیے پاکستان روٹری کلب کی ذمہ داری لگائی گئی۔ ہمارا آنا اسی مقصد کے لیے تھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے مغربی اقوام جہاں بھی جاتی ہے وہ اپنی تہذیب وتمدن، روایات اور اس طرح کی مختلف چیزیں ساتھ لے کر جاتی ہیں۔ ایسا کرنے سے ان کو ان معاشروں میں کام کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ ہمارایہاں آنا ایک طرح سےروٹری کی روایات کو افغان معاشرے میں پروان چڑھانا تھا۔ روٹری کلب ایک سوشل کلب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ انسانوں کی بھلائی کے لیے بھی لاتعداد کام کرتا ہے۔ ہم یہاں لاہور میں بھی اس کلب کے ساتھ مل کر غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے تحت ایک سکول چلا رہےہیں۔ دنیا میں پولیو کے خاتمہ کے لیے اس کلب نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

کلب کی مصروفیات سے ہم تقریبا گیارہ بجے کے قریب فارغ ہوگئے اور اب کابل شہر کی سیر کا ارادہ تھا اور ہمارے پاس شام تک کا وقت تھا اگلے دن صبح ہماری پاکستان واپسی تھی۔ شام تک ہم نے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل، کابل یونیورسٹی، کارگاہ ڈیم اورکابل کے بازار دیکھے پھر ایک روایتی علاقہ میں دوپہر کا کھانا کھایا۔

ان تمام مقامات کی ایک مختصر روداد آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل:

انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل جانے کے لیے ہماراوہی ڈرائیور حاضر تھا جو ہمیں طور خم سے لایا تھا۔ اب مجھے اس سے ڈر نہیں لگ رہا تھا کیونکہ اب وہ شہر میں گاڑی چلارہا تھا اور عین ڈرائیونگ کے اصولوں کے مطابق چلا رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس زمانے میں لاہور میں انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل، موجودہ پی سی ہوٹل بنایا گیا اسی زمانے میں کابل میں بھی انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل بنایا گیا۔ اس ہوٹل نے 1969 ء میں کام شروع کیا۔ آپ اس سے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں، کہ اسوقت کابل کی معاشی اور معاشرتی حالت کیسی تھی۔ اس ہوٹل میں دو سو کمروں کے علاوہ وہ تمام تر سہولیات موجود ہیں جو کسی بھی فائیو سٹار ہوٹل میں موجود ہوتی ہیں۔ مجھے اس ہوٹل کو دیکھنے کا بہت شوق تھا۔

یہ ہوٹل کابل کے مغرب میں ایک اونچی جگہ پر بنایا گیا ہے۔ خوش قسمتی یہ ہے چالیس سال پر محیط ایک طویل جنگ کے بعد بھی یہ ہوٹل تباہی سے بچا رہا۔ شاید دونوں طرف کے فریقین نے یہ طے کیا تھا کہ اس ہوٹل کو تباہ نہیں کیا جائے گا تاکہ کوئی نہ کوئی جگہ مذاکرات کے لیے باقی رہے۔یا میں یوں کہہ سکتا ہوں کہ یہ امیر لوگوں کی رہائشگاہ تھی انھوں نے کسی معاہدے کے تحت اسے تباہ ہونے سے بچایا۔

ہم ہوٹل پہنچے، وہاں بہت بڑی پارکنگ موجود تھی۔حیرانی کی بات یہ تھی کہ ہماری کوئی لمبی چوڑی تلاشی نہیں ہوئی۔ ہم بڑے آرام سے اس کے لاؤنج میں پہنچ گئے دیواروں پر افغانستان اورافغان تہذیب کی بے شمار تصاویر لگی ہوئی تھی۔ ہم نے وہاں پر کچھ دیر آرام کیا اور کافی پی۔ اس دوران میں نے تو تصور میں یہاں پر ظاہرشاہ سے لے کر داؤد تک اور پھر سرخ انقلاب اس کے بعد بے شمار روس کے زیر اثر حکمران، پھر روسی جرنیل اور اب امریکہ سرکار، درمیان میں کچھ وقت طالبان الغرض سب کو اس ہوٹل میں آتے دیکھا۔

ایسی جگہوں پر جاکر مجھے جو سب سے دلچسپ بات محسوس ہوتی ہے وہ یہی ہوتی ہے کہ آج ہم جہاں بیٹھے ہیں وہاں پر کسی وقت میں ظاہرشاہ بیٹھا تھا، داؤد بیٹھا تھا روسی اور امریکی جرنیل بیٹھے تھے اور آج ہم سیاحت کے شوقین لوگوں کو یہاں بیٹھنے کا موقع مل رہاہے۔ طویل سفر کے بعد جب مجھے ایسا موقع ملتا ہے تو میرے تمام سفر کی تھکان اتر تی ہی نہیں بلکہ ختم ہو جاتی ہے۔

یاد رہے اس ہوٹل کا افتتاح ظاہر شاہ نے 1969 ء میں کیا۔ اس کے افتتاح کی تختی ابھی تک ہوٹل میں لگی ہوئی ہےجسے چالیس سال ہونے کوہیں۔

مکیں چلے جاتے ہیں، مکان باقی رہتے ہیں، یہی دستو ر زمانہ ہے۔

کارگاہ ڈیم:

ہوٹل کے دورے سے فارغ ہوکر ہم ڈیم پر چلے گئے یہ شہر سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، دھوپ نکلی ہوئی تھی دور دور تک پانی پھیلا ہوا تھا، اس پُرسکون ماحول میں صرف چند کشتیوں کے ملاحوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں اب تک بھی اس چمکتی ہوئی دھوپ اور اس کے پرسکون ماحول کو بھلانھیں پایا۔یہ ڈیم 1933 ء میں تعمیر ہوا تھا،98فٹ اونچا یہ ڈیم بارہ سو ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے، اہل کابل کے لیے معروف تفریح گاہ ہے، یہاں پر مچھلیوں کے افزائش کا بھی بندوبست کیا گیاہے ۔اُس وقت ڈیم پر بہت کم لوگ تھے شاید دن کا وقت ہونے کی وجہ سے ایسا تھا۔ یہ ڈیم کابل اور اس کے اردگرد کے علاقہ کو پانی پہنچانے کے کام بھی آتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک پر سکون جگہ ہے جہاں آ پ کو تفریح کے بے شمار مواقع میسّر آ سکتےہیں۔

ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ

تعاون فاؤنڈیشن پاکستان

نوٹ:مجھے ستمبر 2008 ء میں افغانستان جانے کا موقع ملا۔ میں اس وقت روٹری کلب مزنگ لاہور کا صدر تھا۔ مجھے پتہ چلا کے کابل میں ایک روٹری کلب کا پروگرام ہے۔ اسی سلسلے میں کابل جانا ہوا ، وہاں تین دن قیام کیا۔یاد رہے اس وقت افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی۔ ان تین دنوں کی رُوداد پیشِ خدمت ہے۔ باقی آئندہ قسط میں

Facebook Comments Box

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *