Afghanistan Series

کابل: جہاں امن ہمیشہ اپنے ٹھکانے کی تلاش میں رہتا ہے (قسط نمبر2)

مجھے ستمبر 2008 ء میں افغانستان جانے کا موقع ملا۔ میں اس وقت روٹری کلب مزنگ لاہور کا صدر تھا۔ مجھے پتہ چلا کے کابل میں ایک روٹری کلب کا پروگرام ہے۔  اسی سلسلے  میں  کابل جانا ہوا ، وہاں تین دن قیام کیا۔یاد رہے اس وقت افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی۔  ان تین دنوں کی رُوداد پیشِ خدمت ہے۔  باقی آئندہ قسط  میں 

درہِ خیبر اور بابِ خیبر:

پاکستان کے مختلف صوبوں کی نمائندگی ظاہر کرنے کے لیے اکثر اوقات کسی نا کسی  عمارت کی تصویرکا سہارا لیا جاتا ہے۔  جس طرح پنجاب کو ظاہر کرنے کے لیے مینارِ پاکستان۔  اسی طرح موجودہ کے پی کےکو ظاہر کرنے کے لیے باب خیبر کی تصویر لگائی جاتی ہے۔  یہ باب خیبر جمرود میں واقع ہے، اس کے قریب ہی قلعہ جمرود بھی ہے۔  مجھےاسے دیکھنے کا سب سے زیادہ شوق تھا اور اس دن پہلی مرتبہ اس میں سے گزر کر آگے جانے کا موقع مل رہا تھا۔  مجھے بے انتہا خوشی ہو رہی تھی۔

  میں نے اس کا اظہار روہیلہ صاحب سے کیا۔  وہ کہنے لگے کہ یہ واقعی ایک تاریخی مقام ہے۔ یہ 1964 ء میں بنایا گیا تھا۔ یہ اتنا خوبصورت ہے کہ اس کی تصویر کو کے پی کے کے لوگوں نے اپنی نشانی کے طور پر رکھا ہوا ہے۔  بہت سے نوٹوں کےاوپر بھی اس کی تصویر چھپی ہوئی ہے۔ اتنی مشہور جگہ کے پاس جائیں تویقیناً آپ اپنے آپ کو   خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ 

باب خیبر، درہ خیبر کے دہانے پر واقع ہے یہ وہ راستہ ہے جو افغانستان سے آنے کے لیے موضوع ترین سمجھا جاتا ہے۔  اس لیے افغانستان کی طرف سے آنے والے تمام لوگ خواہ وہ جنگ کے لیے آئے، یا علم کی روشنی پھیلانے کے لیے ہندوستان آئے، سب اسی راہ سے گزرے۔  اس راستہ کی اہمیت کی وجہ سے یہاں پر بے شمار لڑائیاں بھی ہوئیں۔

رنجیت سنگھ کے   جرنیل، ہری سنگھ نلوہ نے 1834 ء  میں اس علاقہ کو فتح کیا تھا۔  لیکن 1837 ء میں وزیر اکبر خان نے اس علاقے پر اپنا قبضہ کرلیا۔  درہ خیبر کے شمال میں ملاگوری قبیلہ رہتا ہے اس کے جنوب میں وادی تیرا ہے، جس میں زیادہ تر آفریدی آباد ہیں۔  خیبر پاس میں بھی بڑی تعداد میں آفریدی لوگوں کی آبادی ہے۔  اس علاقہ کی معاشی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ ہی شنواری اور آفریدی قبائل میں لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔  یہ علاقہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والے لوگوں کی آماجگاہ ہے۔ 

 تاریخی واقعات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں امن ناپید ہے۔  کبھی سکندر آیا، کبھی مغل آئے، کبھی غزنوی آئے، کبھی غوری آئے تو کبھی سوری اس سے گزرے۔  جانے کون کون آیا اور جو بھی آیا وہ تباہی پھیلا کر ہی گیا ۔

اللہ کا شکر ہے کہ اب قدرے امن تھا اور ہم بخیر وعافیت اس طویل درہ سے گزر گئےاور ہم اپنی اگلی منزل یعنی طورخم پہنچ گئے۔ جہاں سے ہمیں افغانستان کے اندر داخل ہونا تھا۔ اب ہم افغانستان میں داخل ہو رہے تھے جہاں امن نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔  بہرحال جانا تو تھا اس لیے دل میں خوف اور دعا کے علاوہ کچھ نہ تھا۔میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ میرےگھر میں کسی کو پتہ بھی نہیں کہ میں کہاں ہوں۔  سفر تو پھر ایسے ہی کیا جاسکتا ہے۔

لنڈی کوتل:

جب ہم جمرود سے گزر رہے تھے تواس وقت دن کے گیارہ   بج رہے تھے۔ میرا اس علاقے میں یہ دوسرا دورہ تھا۔ میں پہلی مرتبہ میں اپنے دوست ارشاد گوندل کے ساتھ اس علاقہ میں اس وقت آیا تھا جب مجاہدین نے روس کو شکست دی تھی۔  ہم نے علاقہ کی گہما گہمی دیکھ کر اندازہ لگایا کہ یہ علاقہ معاشی طور پر بہت اہم ہے۔ یاد رہے جمرود کے بعد طورخم تک کا علاقہ فاٹا کا علاقہ کہلاتا تھا۔ یہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان واقع وہ علاقہ ہے جو ڈیورنڈ لائن کی وجہ سے بنا ہے۔  یہ ایک طرح سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بفرزون کی حیثیت   رکھتا ہے۔حال ہی میں فاٹا کے ان تمام علاقوں کو باقاعدہ کے پی کے میں ضم کر دیا گیا ہے اور پہلی مرتبہ یہاں پر الیکشن ہوئے ہیں جس میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب کیے گئے ہیں۔

جمرودسے لنڈی کوتل تک کوئی اہم شہر نہیں ہے۔  لنڈی کوتل پشاور سے پنتالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ سڑک کے ساتھ کہیں کہیں 1950 ء کی بنی ہوئی ریل کی پٹڑی نظر آرہی تھی، جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔  ماضی میں پشاور سے لنڈی کوتل تک ایک ٹرین چلتی تھی، جس میں ملکی اور غیرملکی سیاح آتے تھے۔  اس ریل کی پٹڑی کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا، کہ کس طرح آج سےایک سو سال قبل یہ پٹری ان پہاڑوں پر بچھائی گئی اور یہاں ایک چھوٹے گیج کی ٹرین چلائی گئی تھی۔  اس پٹری کو بنانا یقیناًبہت مشکل کام تھا اور شاید اس سے بھی زیادہ مشکل اسے چلانا تھا، جو ہم چلا نہ سکے۔   ایک سیلاب میں اس پٹڑی کو بہت نقصان پہنچا جس کی وجہ سے ٹرین کو اس پر چلانا ممکن نہ رہا اور اب یہ سلسلہ تقریبا اسی سال چلتے رہنے کے بعد بند کر دیا گیا۔

لنڈی کوتل کا سٹیشن اپنی نوعیت کا ایک بہت ہی خوبصورت ریلوے سٹیشن ہے۔  لنڈی کوتل شہر تھوڑا فاصلے پر ہے، سڑک اس کے قریب سے گزرتی ہے۔ یہ شہر افغانستان کی سرحد سے تقریباًپانچ کلومیٹر پہلے ہے۔  لنڈی کوتل سطح سمندر سے تقریباً تین ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع ہے۔  اس علاقہ میں آفریدی قبائل اور انگریزوں کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں، کبھی انگریز جیتے تو کبھی آفریدی۔  انیسویں صدی کے آخری دس سالوں میں یہ علاقہ میدان جنگ بنا رہا، بالآخر فتح انگریزوں کی ہوئی۔  اس خطہ میں خیبر رائفلز نے اہم کردار ادا کیا۔  جس میں اکثریت اسی علاقہ کے پختونوں کی تھی، اس کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی فوج میں سکھوں کی ایک بہت بڑی تعداد  بھی تھی۔

وادی تیرا میں ایک بہت اہم معرکہ ہوا، جس میں صرف اکیس سکھوں پر مقامی لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں حملہ کیا ۔  سکھوں نے بھی ہتھیار پھینکنے کی بجائے مقابلے کا فیصلہ کیا۔  انگریز ان سکھوں کی مدد کو نہ پہنچ سکےاور تمام سکھ مارے گئے۔  اس واقعہ    پر تین مختلف فلمیں بنائی گئیں اور   انگریزوں نے بھی ان سکھوں کواعلیٰ فوجی اعزازات سے نوازا، ہندوستان کے علاقہ مشرقی پنجاب میں اب بھی ان سکھوں کے نام پر کئی گورودوارے بھی  ہیں۔

جمرود سے لنڈی کوتل تک کا علاقہ بہت زیادہ سرسبز نہیں ہے پھر بھی کہیں کہیں فصلیں نظر آرہی تھیں۔   ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ ہر گاؤں کے باہر بڑی تعداد میں لوگ فارغ بیٹھے ہوئے نظر آتے تھے، میں نے ر ؤف روہیلہ صاحب سے پوچھا یہ کیا ماجرہ ہے؟ کیا ان لوگوں کے پاس کوئی کام نہیں ہے؟   انھوں نے جواب دیا کہ امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں بند ہیں اور لوگوں کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہے۔  یہ اس علاقہ کی سب سے بڑی بدقسمتی تھی۔

  یاد رہے لنڈی کوتل، انگریزوں کی آخری چوکی تھا، اس کے بعد ان کی حکومت نہیں تھی۔ افغانستان کے لوگ اپنے علاقے میں خود مختار تھے ۔  افغانستان کے لوگوں نے انگریزوں کو اس سے آگے نہیں آنے دیااور اگر وہ کبھی آئے توپھر ان کو جانے نہیں دیا۔  یہ ایک تاریخ ہے، جسے ضرور پڑھنا چاہیے۔

طورخم: پاکستان اورافغانستان کے درمیان حدِفاصل  :

ہم لنڈی کوتل سے ہوتے ہوئے طورخم بارڈر پہنچ گئے۔ جب ہم طورخم پہنچے تواس وقت دن ایک بجے کا وقت تھا، سامان سے لدے ہوئے بے شمارٹرک کھڑے ہوئے تھے، جو افغانستان میں داخلے کے منتظر تھے۔  روہیلہ صاحب کے پاس کسٹم کے محکمہ میں کام کرنے والے کسی افسر کا کوئی ریفرنس تھا، ہم ان کے پاس چلے گئے۔  وہ بہت مصروف تھے، یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ وہاں پر ایک بڑے منصب پر فائز ہیں اور کسٹم کے تمام معاملات وہی طے کرتے ہیں۔ انھوں نے ہماری خوب خاطر مدارت کی اور ہمیں چائے وغیرہ پلائی۔تب   مجھے بے حد حیرانی ہوئی جب انھوں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو بلوایا جو افغانی تھا، اور اسے کہا کہ وہ ہمیں کابل لے جائے، ٹیکسی کا کرایہ بھی انھوں نے ہی  ادا کیا، جو ایک بڑی رقم تھی۔  جب تک میرے دوست ان کے دفتر میں بیٹھے رہے میں نے باہر نکل کر اِدھر اور اُدھر جائزہ لینا شروع کر دیا۔

ایک انتہائی دلچسپ بات جو میں نے دیکھی وہ یہ تھی کہ سرحد پر ایک پھاٹک لگا ہوا تھا، لوگ ایک طرف سے دوسری طرف جا رہے تھے۔  کئی لوگ اپنا پاسپورٹ   دکھا کر جاتے تھے، لیکن بہت سے لوگ ویسے ہی آ جا رہے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے خاندان کے لوگ بھی تھے۔  میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ کچھ لوگ پاسپورٹ دکھا کر جاتے ہیں اورکچھ لوگ بغیر پاسپورٹ کے آ جا رہے ہیں؟   تو انھوں نے مجھے بتایا کہ اس بارڈر لائن پر بہت سے لوگ رہ رہے   ہیں جن کے گھر پاکستان اور افغانستان دونوں جگہ ہیں یا ان کے رشتہ دار دونوں ممالک میں رہتے ہیں۔  ان لوگوں کے یہاں آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ یہ مقامی لوگ ہیں اور حکومت نے ان کو سہولت دے رکھی ہے کہ وہ بغیر کسی پاسپورٹ کے آ جا سکتے ہیں۔ میرے لیے یہ بات بہت حیران کن تھی لیکن وہاں پر یہ روز کا معمول تھا۔

 طورخم کے مقام پر پاکستان کی حدود میں ایک کسٹم چوکی واقع ہے، اس جگہ ایک بڑا گیٹ بنایا گیا ہے جس کا نام باب پاکستان ہے۔  یہ اتنا خوبصورت نہیں جتنا باب خیبرہے، لیکن یہ ایک بڑا گیٹ ہے جس سے تمام لوگ آتے جاتے ہیں۔  میں پاکستان کسٹم آفس سے افغانستان میں لوگوں کو دیکھ رہا تھااور یہ سوچ رہا تھا کہ چند لمحوں بعد میں افغانستان میں ہوں گا اور میرے ارد گرد وہ افغانی لوگ ہوں گے جنہوں نے دو سپر پاورز یعنی انگریزوں اور روس کو شکست دی ہے اور اب ان کا مقابلہ تیسری سپرپاور امریکہ سے جاری ہیں۔یاد رہے کہ اب 2019 ء ہے اور ابھی تک امریکہ افغانستان کے دسویں حصے پر بھی قبضہ قائم نہیں کر پایا اور طالبان ان کے سامنے ڈٹے ہو ۓ ہیں۔  اللہ کرے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ افغانستان میں کوئی امن کی راہ نکل سکے (آمین)۔

ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ

تعاون فاؤنڈیشن پاکستان

Facebook Comments Box

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *