بلخ: ایک ایسا تاریخی شہر جس سے بو علی سینا کا تعلق جُڑا ہے ، جہاں مولانا جلال الدین روم پیدا ہوئے اور یہاں امیر خسرو کے والد بھی رہائش پذیر رہے ہیں۔
بلخ، افغانستان کا ایک اہم شہر ہے جو مزار شریف سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مغرب میں واقع ہے۔ ہم مزار شریف سے اس کی طرف چل پڑے۔ بہت ہی خوب سڑک تھی۔ محسوس ہوتا تھا کہ اسے چند سال قبل ہی تعمیر کیا گیا ہے۔ بلخ سے پہلے بغیر گنبد والی مسجد گئے، جس کا احوال میں پہلے ہی بیان کرچکا ہوں، ا سوقت یہاں آپ کی خدمت میں بلخ شہر میں گزرے وقت اور اس کی تاریخ بارے کچھ معلومات پیش کر رہا ہوں۔
اب تک جو میں نے تاریخ پڑھی ہے اسکےمطابق موجودہ بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، برما، سری لنکا، پاکستان اور افغانستان کے ایک بڑے رقبے پر بدھ مت اور ہندو مت کے ماننے والے لوگ رہتے تھے اوروہی ان کے حکمران بھی تھے۔ بدھ مت کے زوال کے بعد ہندو مت کے ماننے والے لوگ ہی اس خطہ کے باسی تھے جبکہ ایران سے ملحقہ علاقوں میں آتش پرست یا زرتشت رہتے تھے، جس کا مرکز ایران تھا۔
تاریخ پر نظردوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمان، ہندوستان میں تین اطراف سے آئے۔ کچھ لوگ سمندر کے ذریعے، کچھ ایران کے راستہ اور باقی کابل کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ ہندوستان کے شمال مغربی راستے سے آنے والے لوگوں نے سب سے پہلے افغانستان کے موجودہ علاقے پر قبضہ کیا۔ اس لیے جب بھی اس علاقے کی تاریخ کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے میں بندھ مت، زرتشت یا ہندو مت کے آثار پائے جاتے ہیں، یہی حال بلخ کا ہے۔
بلخ میں بھی زرتشت اور بدھ مت کے ماننے والے رہتے تھے۔ یہ شہر ان کا ایک اہم مرکز تھا۔ یاد رہے کہ مزار شریف کو خراسان کا دروازہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ بات میں نے مزار شریف شہر میں داخل ہوتے وقت ایک بڑے بورڈ پر لکھی ہوئی بھی دیکھی۔
اسی حوالے سے پتا چلتا ہے کہ بلخ، خراسان کا یک امیر اور بڑے شہروں میں سے ایک تھا۔ اسی باعث تاریخ میں اسکے کئی نام ملتے ہیں۔ مارکو پولو نے بھی اس شہر کے بارے لکھا ہے اور وہ اسے ایک عظیم شہر لکھتا ہے۔ یہ ایک طویل بحث ہے۔ بلخ کے عام طور پر معنی تمام شہروں کی ماں سمجھا جاتا ہے۔
جب ہم بلخ شہر میں داخل ہوئے، ہمیں یہ شہر کسی طور پر ایک قدیم شہر نہ لگا۔ لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کوئی چار ہزار سال پہلے ایران سے آکر کچھ قبائل یہاں آباد ہوےتھے۔ حال ہی میں اس علاقے میں بالا حصار نامی علاقے میں کئی ایسے آثار سے ملے ہیں جن سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہ شہر بھی ایک فصیل میں واقع تھا۔
اسی لیے اس علاقے میں ایرانی زبان، ایرانی تہذیب اورایرانی طرز تعمیر کی جھلک ملتی ہے۔ اگر آپ قدیم ایران کی تاریخ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وسطی ایشیا پر حکمرانی کے لیے اہلِ ایران نے بلخ کو ہی اپنا مرکز بنایا تھا۔ عرب بھی اسے ام البلاد یعنی شہروں کی ماں کہتے تھے۔ بدھ مت سے پہلے یہ شہر زرتشت کا مرکز تھا۔ پھر ایک وقت آیا جب ایران کمزور پڑ گیا تو اہلِ ہند کے کئی حکمران خاندانوں نے یہاں حکومت کی، جن میں کشان قابلِ ذکر ہیں۔
تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آٹھویں صدی کے دوران جب عربوں نے وسطی ایشیا سے نکل کر ا س علاقے پر حملے شروع کیے اسوقت بلخ کے باشندے بدھ مت پر عمل کرتے تھے۔ ان کی یہاں پر کئی عبادت گاہیں بھی تھی۔ جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ ہم وقت کی کمی کی وجہ سے انھیں دیکھ نہ سکے۔ جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ اگر آپ کو بامیان کے بدھ مت کے مجسمے یادہو ں جنہیں طالبان نے اپنے پہلے دور میں تباہ کیا تھا، وہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ کبھی یہاں بدھ مت کا عروج تھا۔
مجھے تاریخ کے مطالعے سے بلخ کے بارے ایک ایسی بات کا پتہ چلا جس کا ذکر اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ یہ ایک نہایت ہی دلچسپ بات ہے۔ عربوں کی فتح کے وقت یہ شہر علمی طور پر دنیا بھر میں جانا جاتا تھا۔ جب عرب بلخ میں آئے تو المنصور کے وزیر خالد کی سرپرستی میں ایک ادراہ بنایا گیا جس نے سنسکرت کے طبی نسخوں کا ایک بڑی تعداد کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ خالد بدھ مت کا پیرو کار تھا۔ ا سکا والد ایک خانقاہ کے سربراہ کا بیٹا تھا۔ جب عربوں نے بلخ پر قبضہ کیا تو خالد کا خاندان مارا گیا۔ جو بچ رہے ان میں خالد بھی تھا جس نے اسلام قبول کر لیا۔
کیا اس علاقے میں یہودی بھی آبادتھے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب میں بہرحال میں تلاش کر رہا ہوں۔ یہ بھی جاننے کی کوشش کررہا ہوں کہ یہود کب آئے، کہاں رہے اور اب کیوں نہیں ہیں؟ کیونکہ تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب مدینہ سے یہودیوں کو بے دخل کیا گیا تو ان میں سے ایک قبیلہ اس علاقےکی طرف بھی آیا اور اس طرح یہاں یہودیوں کی آباد کاری شروع ہوئی۔ بلخ میں ان کی باقیات میں سے “باب الیہود” کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے۔ سلطان محمود کے دور میں بھی یہودیوں کا ذکر ملتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہودی یہاں کبھی بھی ایک بڑی تعداد میں نہیں رہے۔
اس علاقے پر قبضہ سے پہلے عربوں نے ساتویں صدی کے وسط میں فارس پر قبضہ کیا۔ یہ خلافت حضرت عثمانؓ کا دور تھا۔ فارس کی فتح کے بعد بلخ کی شان و شوکت اور دولت کی وجہ سے عربوں کا اگلا نشانہ بلخ تھا، جس پر عربوں نے بلخ پر 645ء میں ایک کامیاب حملہ کیا۔ ا سکے بعد 663 عیسوی میں حضرت معاویہؓ نے اسے دوبارہ فتح کیا، بعدازاں بلخ مکمل طور پر عربوں کے کنٹرول میں آگیا۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان