Taawun

بزرگوں کا احترام ہمارا فرض

غالباً 2010 کی بات ہے، میں چیک ریپبلک میں اپنی تعلیم کے سلسلے میں موجود تھا۔ ایک عام سی مارکیٹ میں، ایک ٹھیلے کے اوپر، ایک صاحب ڈرائی فروٹ بیچ رہےتھے، بڑے وضع دارتھے۔ عام طور پر وہاں لوگ انگلش نہیں بولتے تو دکاندار سے بات کرنے سے پہلے آپ کو یہ پوچھنا پڑتا ہے کہ

“Can You Speak English”

میں نے اس سے بھی یہی کہا، تو اس نے آگے سے بڑی فرسٹ کلاس انگلش میں یہ کہا کہ

“Yes, I can speak English, I live for 25 years in United States of America.”

میں نے اگلا سوال کیا، کہ پچیس سال امریکہ رہنے کے بعد واپس چیک ریپبلک میں کیوں آگئے؟ اور یہاں آ کر یہ ایک ڈرائی فروٹ کی ریڑھی کیوں لگائی؟ ان صاحب نے مجھ سے جو بات کی وہ سونے سے لکھنے والی تھی۔

اس نےکہا کہ میری بوڑھی ماں ہے، وہ ابھی بیمار ہے اور اس کی عمر بہت زیادہ ہے۔ وہ کسی بھی وقت اس دنیا سے منہ موڑ سکتی ہے۔ مجھ پر یہ فرض تھا کہ جس نے مجھے پالا پوسا اب آخری دنوں میں اس کی خدمت کروں اور میں اس لیے یہاں آیا۔میں دو سال کے بعد پھر چیک ریپبلک گیا تو وہ صاحب وہی پر تھے تو میں نے حال احوال پوچھا اور گزشتہ ملاقات والی بات دہرائی تو اس نے کہا کہ ابھی میری والدہ زندہ ہیں اور جب تک وہ حیات ہے تب تک میں یہاں ہوں۔

بزرگوں کی قدر و منزلت صرف برصغیر کے لوگوں کا ہی شیوا نہیں۔ میں نے دیکھا ہے، دنیا کے ہر حصہ میں والدین کی تعظیم بھی کی جاتی ہے اور ادب بھی کیا جاتا ہے۔ اب تو قانون بنے ہیں کہ بوڑھے لوگوں کے لیے، سینئر سیٹیزن کے لیے لائن بھی الگ ہوتی ہے، ان کی پارکنگ کی جگہ بھی الگ ہوتی ہے، بس میں ان کی سیٹیں بھی الگ ہوتی ہیں، ان کی ٹکٹیں بھی کم قیمت کی ہوتی ہیں۔

الحمدللہ، ہمارے کلچر کے اندر، ہمارے مذہب کے اندر اس کی بہت سخت وعید ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے کے اندر لوگ اپنے بزرگوں کی قدر کرتے ہیں۔ مجھے بڑا ہی اچھا لگتا ہے جب کبھی کسی ریسٹورنٹ میں جائیں تو ایک بوڑھے آدمی کو چار پانچ اس کے پوتے، نواسے لے کر آرہے ہوتے ہیں اور وہ پورے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ ہم بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں اور نہ یہ کہ دنیا جہان میں اب ایسا بہت زیادہ ہونے لگا ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اب انسان اپنی مصروفیت کی وجہ سے اپنے بزرگوں کو وقت نہیں دے پارہے ہیں۔

مجھے چند ماہ پہلے، لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ میں واقع ایک اولڈہوم میں جانے کا اتفاق ہوا۔ آپ یقین کریں مجھے بہت ہی دکھ ہوا اور آج تک وہ منظر میں نہیں بھول پا رہا۔ 100 کے قریب بوڑھی عورتیں اورمرد وہاں پر موجود تھے۔ بڑے حسین جمیل اور ایسے جیسے بڑی اچھی زندگی گزری ہو لیکن آج وہ اولڈ ہوم میں ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا ہمارے گھروں میں جگہ کم ہوگئی ہے؟ یا ہمارے دلوں میں جگہ کم ہوگئی ہے۔

ہمارا دین تو ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے ،قرآن ہمیں یہ کہتا ہے کہ تم ان کو اُف تک بھی نہ کہو۔ بلکہ قرآن ہمیں یہ دعا بھی سکھاتا ہے کہ “دعا کرو کہ اے اللہ جس طرح سے انہوں نے میرے اوپر بچپن میں رحم کیا تو بھی ان پر اس طرح رحم کر۔”

میں کچھ عرب دوستوں کو جانتا ہوں۔وہ جب ایک دوسرے کو ملتے تھے تو یہی کہتے تھے، “اللہ آپ کے ماں باپ پررحم کرے” وہ کہتے تھے یہ ہماری بہترین دعا ہے۔ نبی پاکﷺ نے بھی کسی بوڑھے آدمی کی تعظیم اور اس کا احترام کرنے کا بار بار حکم دیا ہے۔ یہ قرآن و حدیث کی بڑی عام جاننے والی چیزیں ہیں ،جو میں اور آپ بھی جانتے ہیں۔ صرف یہ مذہب ہی نہیں، کوئی بھی کلچر ہو بلکہ ہر کلچر کے اندر ،ہر مذہب کے اندر،ہر علاقے کے اندر، ہر قانون کے اندر بزرگوں کا احترام کرنا ہم سب کو سکھایا گیا لیکن جب ہم کبھی اولڈ ہوم میں جاتے ہیں تولگتا ہے کہ کچھ ایسے بدنصیب ضرور ہیں جنہوں نے یہ جنت گنوا دی ہے۔وہ جو کہتے ہیں “با ادب بانصیب، بے ادب بےنصیب” تو ہمیں ایسا نہیں کرناچاہیے۔

سپین میں، میں نے ایک شخص سے پوچھا۔ وہ بہت ہی امیر آدمی تھا، اس کا بہت بڑا گھر تھا۔ پہلے وہ ایک بڑے گھر میں رہتا تھا بعد میں وہ ایک چھوٹے سے گھر میں آگیا۔ میں نےاس سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ میری ماں کا گھر یہاں پر ہے اور میرا گھر یہاں سے دور ہے۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میرے ساتھ بڑے گھر پہ شفٹ ہو جائیں۔ تومیری والدہ نے کہا نہیں میری عمر ساری اس علاقے میں گزری ہے میں یہی رہوں گی۔ اب میں نے اپنی ماں کی خاطر اس علاقے میں اپنا گھر شفٹ کر لیا ہے۔

میرے بہن بھائیوں!

دنیا میں ہر جگہ بزرگوں کا احترام کیا جاتا ہے لیکن لگتا ہے کہ اب اس کے اندر کوئی تھوڑی سی کمی ہو ئی ہے۔ اب ہم اپنے گھروں سے، اپنے بزرگوں کو اولڈ ہوم میں بھیج رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کو ہمیں بھی کوئی بھیج دے۔ اس سے پہلے ایسا وقت آئے۔آئیں اس بات کو پھیلائیں کہ بزرگ رحمت ہوتے ہیں، شفقت ہوتےہیں، بزرگوں سے برکت ہوتی ہے۔ ان کو اپنے سینے سے بھی لگا کر رکھیں، اپنے دل میں بھی جگہ دیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک بھی کریں۔

آخری بات میں یہی کہوں گا۔ میرے اور آپ کے بچے ہمیں یہ دیکھتےہیں کہ ہم اپنے ماں باپ سے کیسا سلوک کرتے ہیں ۔وہ ہماری زبان پہ اعتبار نہیں کریں گے وہ صرف یہی کہیں گے کہ جیسا سلوک آپ نے اپنےماں باپ کے ساتھ کیا، ویسا ہی ہم ان سے توقع کرتے ہیں۔ وہ ایک پرانی سی کہانی آپ نے سنی ہوگی۔ کہ کوئی آدمی اپنے باپ کو نہر میں گرانے کے لیے لے گیا۔ تو جب دریا میں اپنے باپ کو گرانے لگا تو اس کے باپ نے کہا مجھے اس سے ذرا آگے پھینکنا اس نے کہا کیوں؟ اس نے کہا کہ یہاں میں نے اپنے باپ کو گرایا تھا۔ یہ کتابوں میں ایک نصیحت آموز کہانی تھی۔

آئیں اسے دوبارہ یاد کریں۔ اپنے ماں باپ کو ،اپنے گھر کے بزرگوں کو، اپنے دل میں بھی جگہ دیں اور اپنے گھر میں بھی جگہ دیں۔ انشاءاللہ ان کا وجود ہمارےلیے باعث رحمت اور برکت ہوگا۔

میں تو ایسا سوچتا ہوں

ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ

تعاون فاؤنڈیشن پاکستان

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *