Taawun

Sympathy اور Empathy دونوں کیوں ضروری؟

آپ نے انگریزی کے دو لفظ بہت سنے ہوںگے۔ ایک   “ایم پاتھی”اور  دوسرا  “سم پاتھی”۔

تھوڑا سا ہی فرق لگتا ہے بظاہر دیکھنے میں، کسی سے تعریف پوچھیں تو وہ کہے گا، “سم پاتھی” یعنی دوسرے کے ساتھ محبت کرنا، خیال کرنا، مدد کرنا اور دوسروں کے کام آنا، کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا یہ “سم پاتھی”  ہے۔

“ایم پاتھی” اس سے آگے کی چیز ہے۔ اس وقت ماہرین نفسیات نے جس بات پر تحقیق کی ہے، اور وہ اس بات کی طرف ہے کہ دنیا میں “ایم پاتھی” کا اثر کیا ہے؟ “سم پاتھی” سادہ سی زبان میں یہ ہے کہ میرے سامنے کوئی آدمی ہے اور وہ کسی مشکل میں ہے تو مجھےاس سے ہمدردی ہے۔تو میں ایک ہمدردانہ نظریے سے اس کی کوئی مدد کر سکوں، اس کا کوئی خیال کر سکوں، جواس کی خدمت ہے وہ کر سکوں، جس کو میں “سم پاتھی” کہتا ہوں۔ میں نہیں کہتا بلکہ کتابیں اس کو”سم پاتھی” کہتی ہیں۔

“ایم پاتھی” یہ ہے، کہ آپ اس کی جگہ پر کھڑے ہو کر یہ محسوس کریں کہ یہ درد اس کو نہیں ہو رہا بلکہ مجھے ہورہا ہے۔ آپ یہ اُس وقت محسوس کریں گے جب آپ ایک “ایم پاتھیک” موڈ میں جائیں گے۔

مثلاً جیسے کسی کا آپریشن ہو رہا ہے اوراُس کے پاس پیسے نہ ہو، کسی کی جاب چھوٹ گئی ہو یا کوئی اور حادثہ پیش آگیا ہو۔ تو”ایم پاتھی” یہ ہے کہ آپ وہاں پر کھڑے ہو کر خود یہ سوچیں کہ آج میری جاب چھوٹ گئی ہے تو میرا کیا حال ہوگا؟ میرے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ ان صاحب کویہ مشکل  پیش آئی ہے اگر مجھے آتی تو کیا ہوتا؟

جب آپ “ایم پاتھیک” موڈ کے اندر جاتے ہیں، تو پھر یقینی طور پر آپ ایک اور ہی دنیا میں چلے جاتے ہیں۔ پھر جب آپ کسی کی مدد کرتے ہیں تو درحقیقت وہ آپ کی اپنی مدد ہوتی ہے، وہ آپ کو بہت ساری مشکلات سے نکالتی ہیں۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور آج بے شمار تحقیقات اس پہ ہو چکی ہیں کہ “سم پاتھی” آدمی کو ڈپریشن سے نکالتی ہے، یہ آدمی کو اٹھاتی ہے، یہ اس کے تنہائی کے احساس کو ختم کرتی ہے، اس سے آدمی کے اندر خوف ختم ہوتا ہے۔

ہمیں تو حکم ہی یہی ہے  کہ” تم اس وقت تک مسلمان ہی نہیں ہو سکتے جب تک تم اپنے بھائی کے  لیے وہ نہ پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ ایسے ہی جیسے میں اپنے آپ کو گالی دینا پسند نہیں کروں گا تو میں اپنے بھائی کو دینا کیسے پسند کر سکتا ہوں؟ یقینی طور پر یہ درست ہے۔

ہمیں یہ محسوس کرنا چاہیے کہ پوری امت ایک جسم کی مانند ہے۔ کسی ایک جگہ پہ درد ہوتا ہے تو سارا جسم اس کا درد محسوس کرتا ہے۔ یہی “ایم پاتھی” ہے۔ میں نے جو دین پڑھا ہے، جو مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ “سم پاتھی” کافی نہیں  ہے۔ “سم پاتھی” تو بہت ہے کہ ہم گزر رہے ہیں، کوئی آدمی زخمی ہے تو ہم نے کہا ہمیں آپ سے بہت ہمدردی ہے

ایم پاتھی، یہ تھی کہ میں اپنی فکر چھوڑ کر اس کو اٹھاتا اور اس کو ہسپتال لے جاتا۔

اگر مجھے خود ایک چائے کے کپ کی طلب ہے اور میں اس چائے کو نہیں پیتا بلکہ میں اسے کسی اور کو دے دیتا ہوں۔ یہی وہ منزل ہے جو ہمیں رب کےقریب کرتی ہے، جو ہمیں اپنے مالک کے قریب کرتی ہے کہ ہم اپنی ضرورت کو ہٹا کر دوسرں کی ضرورت کوپورا کرنے کی  کوشش کرتے ہیں۔

میں پورے وثوق سے یہ بات کہتا ہوں کہ آپ اللہ کے کنبے کی خدمت کر کے تو دیکھیں، اپنی کسی ضرورت کو روک کر اس کی خدمت کر کے تو دیکھیں۔ انشاءاللہ العزیزآپ کی ضرورتیں وہ پوری کرے گا جو اس دنیا کا مالک اور خالق ہے۔

آئیں اس کے کنبے کی خدمت کریں جیسے بھی کر سکتے ہیں، اچھا بول کے کر سکتے ہیں لیکن بہترین خدمت میرے نزدیک وہ یہ ہے کہ اگر آپ اپنی کسی ضرورت کو روک کر اپنے کسی بھائی کی ضرورت پوری کرتے ہیں تو میرے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل اللہ رب العزت کو یقیناً یہی ہوگا۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے زندگی میں کہ اگر میں اس سال کپڑے نہ لوں تو اپنے کسی ضرورت مندبھائی کو لے کر دے دوں۔ تو اللہ تعالی ہمیں کپڑوں کی کمی نہیں آنے دے گا۔انشاءاللہ

 میں تو ایسا سوچتا ہوں

ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ

تعاون فاؤنڈیشن پاکستان

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *