Taawun

پاکستان کِک آؤٹ پولیو

World-Polo-Day.png

کتنا دل دکھتا ہے میرا اور آپ کا اور ہم سب کا جب ہم کسی پھول جیسے بچے کو بیساکھیوں کے سہارے چلتا ہوئے دیکھتے ہیں۔ پتا یہ لگتا ہے کہ یہ بالکل صحت مند بچوں کی طرح پیدا ہوا اور اسی طرح سے کھیلتا کودتا تھا پھر اس کے اوپر کسی دن پولیو نے حملہ کیا اور یہ بالکل معذور ہو گیا ہے اور اب یہ سہارے کے بغیر نہیں چل سکتا۔ پولیو ایک ایسا مرض ہے جس کا زیادہ تر اثر ٹانگوں پر ہی ہوتا ہے۔ ہمارے اپنے خاندان کے اندر بھی کچھ ایسے بچے پیدا ہوئے جن کو اس طرح کی بیماری تھی جن میں وہ چل پھر نہیں سکتےتھے۔آپ یقین کریں وہ پورے خاندان کے سب سے لاڈلے بچے تھے ہر فرد ان کو اسی لیے پیار کرتا تھا کہ ان کو احساس کمتری نہ ہو۔
پولیو ایک ایسا مرض ہے جو ایک وائرس کے ذریعےپھیلتا ہے۔اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ اس کی ویکسین تیار ہو چکی ہے ، دنیا کے بیشتر ممالک کے اندر اس کی ویکسین بچوں کو لگائی جاتی ہےاور ان کوپورے پروگرام کا کورس کروایا جاتا ہے ۔خوشی کی بات یہ ہے کہ بہت سارے ممالک جن میں یورپی ممالک کے علاوہ افریقہ کے ممالک بھی شامل ہیں اور بھی تیسری دنیا کے ممالک شامل ہیں جنہوں نے اپنے ہاں پولیو کو شکست دے دی۔ ابھی میں انٹرنیشنل رپورٹ پڑھ رہا تھا تو اس کا ٹائٹل تھا افریقہ “کک آوٹ پولیو”۔
لیکن پاکستان کے اندر بدقسمتی سے ہر سال اس کے کیسز سامنے آرہےہیں کبھی زیادہ کبھی کم ۔اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اس کی ویکسی نیشن کروائی جائے۔ حکومتی سطح پر ہر سال اسکی ویکسی نیشن کی مہم چلائی جاتی ہے۔ اس دوران پاکستان بھر کے دو کروڑ سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود بھی اگر یہ مرض کم نہیں ہوتا، تو اس کی پھر کوئی نہ کوئی وجہ تو موجود ہے اور اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ کچھ بچے پھر بھی رہ جاتے ہیں، جن کو پولیوں کے قطرے نہیں پلا پاتے۔
میرے دوستوں آپ بھی جانتے ہیں، میں بھی جانتا ہوں اور دنیا اس بات کو بھی جانتی ہے حتی کہ ماں باپ بھی جانتے ہیں کہ پولیو کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ایک دفعہ جو اس کا شکار ہو جائے وہ ٹھیک نہیں ہو سکتا کسی بچے کو یہ بیماری آن لے،پھر جب تک وہ زندہ رہتا ہے وہ زندگی اسی معذوری میں گزارتاہے۔ ایسے بچوں کے ساتھ دوسرے بچے کھیلنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اس کا علاج سوائے اس طریقے کے نہیں ہے جو دنیا نے اس کو ختم کرنے کے لیے کیا ہے۔ وہی طریقہ ہم اپنائیں گے تو ملک سے یہ پولیو کی بیماری ختم ہو سکتی ہے۔ وہ طریقہ کیا ہے؟ بچوں کو لازماًپولیو کے قطرے پلائے جائیں۔ حکومت کی طرف سے اب پولیو کےقطرے مفت ملتے ہیں حکومتی نمائندے گھر گھر جا کر بچوں کو پلاتے ہیں۔
پچھلے سال مجھے کوئٹہ بائی روڈ جانے کا اتفاق ہوا، آپ یقین کریں بڑی خوشی ہوئی کہ ہر چوکی پر ہمیں کوئی نہ کوئی آکر یہ پوچھتا تھا کہ آپ کی گاڑی میں کوئی بچہ تو نہیں ہے؟ ہم نے کہا آپ ایسا کیوں پوچھتے ہیں، انہوں نے کہا اگر بچہ ہو گا تو اسےہم پولیوکے قطرے پلائیں گے۔ پولیو کے خاتمے کیلئے بغیر آگاہی کے ،ادراک کے، شعور کے اور کوئی علاج نہیں ہے۔
یقینی طور پر ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ اس کا بچہ بھاگے دوڑےنہ بلکہ زمین پر بیٹھا رہےایسا کوئی نہیں چاہے گا، جب ہم ایسے کسی بچے کودیکھتے ہیں اس سے بھی تکلیف ہوتی ہے۔ آئیے مل جل کر یہ طے کریں کہ پاکستان کے اندر شعور وآگاہی پھیلائیں گے، تاکہ کوئی بچہ بھی پولیو کا مریض نہ بنے، پولیو کے مرض کا شکار نہ ہو۔اس کا ایک ہی طریقہ کار ہے کہ پولیو کے قطرےبار بار پلائے جائیں اور بہت اچھے طریقے سے پلائے جائیں۔
اب جب بھی آپ نے کوئی بھی غیر ملکی سفر کرنا ہوتا ہےتو سب سے پہلے آپ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جاتے ہیں، وہاں پر پولیو کے قطرے دوبارہ پیتے ہیں اور سرٹیفیکیٹ لیتے ہیں اور پھر سرٹیفیکیٹ کےبعد آپ کو ویزہ ملتا ہے۔ میرے ساتھ یہ کئی بار ہوا ہے ۔ اس سے میرے اندر احساسِ ندامت میں ہی اضافہ ہوا ہے۔ دنیا نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں ڈال دیا ہے، جہاں سے پولیو کا وائرس ان کے ملک میں جاسکتا ہے اور ان کے لوگوں کو لگ سکتا ہے۔ کیا یہ قابلِ عزت مقام ہے، اگر یہ نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے۔ تو اس کو بدلنا ہو گا۔ شرمندہ ہونے سے کچھ نہیں ہو گا۔
آئیں مل جل کر یہ طے کریں کہ جو یہ نہیں جانتا اس کو بھی بتائیں، جس کا اس پہ ایمان نہیں ہے ،اس کوبھی سمجھائیں کہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں۔تاکہ ہمیں ہر دفعہ ملک سے باہرجانے سے پہلے ایک نیاسر ٹیفیکیٹ نہ لینا پڑے کیونکہ دنیا کو ڈر ہے کہ آپ اُس ملک سے جا رہے ہیں جس ملک میں پولیو کے مریض ہیں، کہیں آپ بھی پولیو کا مرض لے کر ہمارے ملک میں نا آئیں۔ آئیں باعزت قوم بنیں کیونکہ یہ ضروری ہے کہ پولیو کے متعلق ہم بھی کہیں’’پاکستان کک آوٹ پولیو۔”

میں تو ایسا سوچتا ہوں

ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ

تعاون فاؤنڈیشن پاکستان

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *