تنقید یا رہنمائی، فرق بے بہا اور اثر سمندر جتنا!
میرا اور آپ کا بھی بہت سارے ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہوگا، پڑا بھی ہے، اور پڑے گا بھی جن کا مقصدہر وقت صرف تنقید کرنا ہوتا ہے۔چاہے وہ حکومت ہو ، ان کا کوئی برخوردار ہو، اپنی بیوی ہو، بچے ہو، بھتیجے ہو ،کوئی اپنے ساتھ کام کرنے والے ساتھی ہو، کوئی بھی چیز ہو، ان کو ہروقت یہی نظر آتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے ۔یہ آپ نے غلط کیا، یہ آپ نے کیوں کیا؟ وہ اتنی شدت سے تنقید کرتے ہیں کہ ان کا نام ہی کچھ اس طرح سے پڑجاتا ہے کہ ان کا کا م ہر وقت تنقید کرنا ہے۔ تنقید کرنا کوئی بُری بات نہیں ہے۔لیکن ہر وقت تنقید کرنا، ہر لمحے تنقید کرنا، ہر بات پہ تنقید کرنا ،ہر چیز میں صرف نُقص نکالنا مناسب نہیں ہوتا۔ ایسا کرتے رہنے سے آپ کو بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
میں چند کا ذکر کروں گا،اور پھر آپ سے اس سلسلے میں آگے بات کروں گا۔ فرض کریں، آپ کسی ادارے میں کام کرتے ہیں، وہاں منیجر ہیں یا مالک ہیں تو کچھ لوگ آپ کےساتھ کام کرتے ہیں۔ اب وہ کام کرکے لے آیا اور آپ نے آتے ہی اس پہ تنقید شروع کر دی آپ یقین کریں وہ آئندہ کام ہی نہیں کرے گا۔ وہ کہے گا ،کہ جب بھی کوئی کام کرنا ہے یا سو کام کروں گا تو میرےکام میں کوئی نہ کوئی نقص بھی ہو گا۔ جس نے کرنا ہے اسی نے غلط کرنا ہےاور جس نے نہیں کرنا اس نے کیا غلط کرنا ہے۔ جب آپ ہربات پہ تنقید کرتے ہیں تو لوگ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے جی آپ نے کہا ہے کہ دس فٹ چلو دس فٹ چلیں گے۔ وہ آگے دو فٹ نہیں چلے گے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنی سوچ سے کچھ کام کیا تو اس پہ تو تنقید ہی ہونی ہے۔ تو لوگ آپ سے خوف کھائیں گے۔ آپ سے دور چلے جاتے ہیں۔ یہ ہر وقت کی تنقیدان بچوں، اُن لوگوں کی ذہنی صلاحیتوں کو، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کوتباہ کر دیتی ہے۔یہ آپ بچے میں دیکھ لیں۔ہر وقت آپ اسے ٹوکتے رہے یہ آپ نے غلط کیا ،یہ کیوں کیا؟کھانا ایسے کیوں کھایا؟چمچ نیچےکیوں گر ایا؟جس سے اس کی شخصیت کے اندر بہت بڑی رکاوٹ آ جاتی ہے۔
تنقید کوئی بری چیز نہیں ہے۔ لیکن تنقید سے پہلے ایک شاباش کا لفظ بھی ہے۔ آپ کاملازم آپ کے سامنے کوئی کام کر کے لایا ،کوئی پریزنٹیشن بنائی ہے، کوئی پروڈکٹ بنائی ہے، کچھ بھی بنایا ہے، اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اس کی ہر چیز ہی غلط ہے ،ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس کی چار چیزیں ٹھیک ہو اورایک خراب ہو تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے شاباش پھر تنقید۔بعدمیں تنقید کے درمیان میں بھی ایک سٹیج آتی ہے۔اگر آپ ہمیشہ تنقید کرتے رہے گے تو لوگ کام کرنا چھوڑ د یتے ہیں۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے رد عمل کو تین حصوں میں تقسیم کر لیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ جو بھی کام کیا جائے اس میں سے اگر آپ کو کوئی اچھائی نظر آئے ،چاہے وہ حکومت کی ہو، وہ کسی سیاسی پارٹی کی ہو، وہ آپ کے گھر میں ہو،بچے میں ہو، بہن ،بھائی میں ہو،آپ کے اہل وعیال میں ہو ، آپ کے ملازمین میں ہو ، تو سب سے پہلے آپ اس میں سے یہ دیکھیں کہ اس میں سے اچھی چیز کیا ہے ؟جب آپ ایک اچھی چیز کو سراہیں گےتواسکا حوصلہ بڑھے گا، اس کے اندر تخلیقی صلاحیت بھی بڑھے گی، اس کے اندر آئندہ سے کوئی نیا کام کرنے کا حوصلہ بھی بڑھے گا۔
دوسری بات تنقید نہیں ہے۔دوسری بات اصلاح کے پہلوہیں، آپ اسے یہ کہتے ہیں کہ اچھا یہ جو کام آپ نے کیا ہے ،یہ بہت اعلیٰ ہے، بہت اچھی پریزنٹیشن ہے، لیکن اگر آپ اس کی بیک کے اوپر یہ تصویر لگاتے ہیں تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہو سکتی تھی۔ یہ تنقید نہیں ہے یہ اصلاح کا پہلوہے۔ ضروری رہنمائی ہے اور یہ اس کو نیا راستہ دکھانے والی بات ہے تو بجائے اس کے کہ ہم اسے یہ کہیں کہ یہ تم نے کیا کیا؟ یہ تصویر یہاں پہ کیوں نہیں لگائی؟ ہم اسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے۔یہ آپ نے پچاس نمبرلیے ہیں، اگلے بیس ،تیس نمبر لینے کے لیے آپ یہ کام کریں۔ جب آپ اس کہیں گے تو وہ پاسنگ مارکس کے ساتھ واپس جا رہا ہے اور اب وہ آئے گا کہ مجھے اپنا گریڈ بہتر کرنا ہے۔ لیکن اگر آتے ہی اس کو آپ نے فیل کر دیا تو وہ فیل شدہ آدمی کبھی پاس نہیں ہوتا۔ آپ رزلٹ اٹھا کر دیکھ لے کسی بھی کالج، یونیورسٹی کا ، ان بچوں کو جو دو چار دفعہ فیل ہو جاتے ہیں یا کسی بھی وجہ سے تو وہ دوبارہ پاس ہونے کا حوصلے کھو دیتے ہیں۔
ایک بڑی ہی دلچسپ بات میں نے پڑھی امریکہ کے اندرایک سکول ہے وہ پاس فیل نہیں لکھتے، پھر پاس تو شاید لکھتے ہوں گے لیکن وہ فیل نہیں لکھتے۔مجھے شوق ہوا کہ کیا لکھتے ہیں تو میں نے دیکھا تو پتا لگا کہ وہ لکھتے ہیں Not Yet یعنی ابھی تم پاس نہیں ہوئے۔ فیل کا وہ لفظ استعمال نہیں کرتے ۔
تیسری بات ہے کہ تنقید کیجیئے! لیکن جب آپ کسی کو کوئی کام کہیں اور وہ نہ کرے اور بار بار آپ کی دی ہوئی اصلاح پر عمل نہ کرے تو یہ آخری ہتھیار ہے۔ یہ بالکل آخری قدم ہے اور اس کو پہلے قدم کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ شاباش پہلے تنقید بعد میں، اور درمیان میں اصلاح کے پہلوؤں کو اجاگر بھی کریں۔
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان یہی پیغام آپ کے سامنے لے کر آ ئی ہے۔ آئیں مل جل کر جو اچھی باتیں ہم سیکھتے ہیں اس کو دوسروں تک پہنچائیں۔ امید ہے کہ آپ ہماری اس گفتگو کو اور ہماری دیگر باتیں کو آگے پہنچا کر اس کارِ خیر میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
بہت بہت شکریہ!
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان