ہمارے ارد گرد کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو کبھی کبھار احساسِ برتری کا شکار ہو جاتے ہیں یا بعض اوقات ہمیں خود بھی اس کیفیت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جو لوگ احساسِ برتری کا شکار ہو جاتے ہیں وہ کسی بھی محفل میں موجود ہوں، ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ سب سے برتر ہیں اور اس احساس کو اپنی گفتگو سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ برتر ہیں۔ اس کے برعکس کئی لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ اگر کسی محفل کا حصہ بن جائیں تو سمجھتے ہیں کہ سب لوگ ہم سے بہتر ہیں اور ہم ہی سب سے بُرے ہیں۔ وہ اس قدر ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں کہ محفل سے چلے جانا بہتر خیال کرتے ہیں۔ اس محفل میں ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ یہ دونوں ایکسٹریم کیفیات ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ ہم احساسِ برتری یا احساسِ کمتری کا شکار ہوں؟ مختصراً بیان کرنا چاہوں گا کہ ان کے اثرات کیا ہیں؟
قارئینِ محترم! احساسِ برتری ایک ایسی کیفیت ہے جو آپ کے اور لوگوں کے درمیان حد قائم کرتا ہے، ایک طرح کا بیریئر بناتا ہے۔ آپ ان کی کسی بات سے متفق نہیں ہوتے بلکہ ان کی بات سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ آپ ان کا سیدھا نام بھی نہیں لینا چاہتے، انہیں نک نیم سے پکارتے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں کر سکتے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوں بس میں ہوں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ آپ کی شخصیت میں اگر کوئی تبدیلیاں آنی ہوتی ہیں تو وہ رک جاتی ہیں کیونکہ معلومات نہیں ہوتی یا ان کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ آپ نے اپنے اردگرد ایک مضبوط حد قائم کر لی ہے۔
اس کے برعکس جب احساس کمتری کی بات آتی ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ سب لوگ مجھ سے بہتر ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی تجویز ہو بھی تو آپ خوف کی وجہ سے نہیں دیتے کہ کہیں یہ میرے لیے باعثِ طنز نہ بن جائے۔ یہ خوف آپ کو دل ہی دل میں کھائے جاتا ہے کہ اتنے دانا لوگوں میں میں اپنی بات کیسے رکھوں۔ ان کا لباس، انداز گفتگو حتیٰ کہ ہر لحاظ سے وہ مجھ سے بہتر ہیں۔ یقین جانیے کہ احساسِ کمتری آپ کو اپنی تجویز آگے نہیں پہنچانے دیتا جس کی وجہ سے بہت اچھے اچھے آئیڈیاز ضائع ہو جاتے ہیں۔ احساس برتری والا معاملہ تو شاید ہی کبھی ہوا ہو مگر احساس کمتری کا شکار میں بذاتِ خود کئی بار بڑی بڑی میٹنگ میں ہو چکا ہوں۔ میرا خیال تھا کہ اس قدر دانا اور پڑھے لکھے لوگ میری بات کی کیا قدر کریں گے۔ ان کے لباس یا ان کے انداز گفتگو سے متاثر ہو کر میں اپنی بات نہ کہہ سکا۔ دونوں طرح کی کیفیات انسانی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ آپ اپنی اصلی شناخت جانئے، نہ ہی خود کو کسی سے برتر سمجھیں اور نہ ہی کسی سے کم تر سمجھیں۔ آپ جو ہیں بس وہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یونیک پیدا کیا ہے، آپ کی شکل و صورت جیسا اور کوئی نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے جو آپ کو صلاحیتیں بخشی ہیں وہ ہر انسان سے مختلف ہیں۔ بہت کم چیزیں ایسی ہیں جو دوسروں سے ملتی جلتی ہیں۔
اس لیے آپ اپنی شناخت جانئے اور اسی کو لے کے آگے بڑھیں اور روزبروز اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کریں۔ نہ ہی اپنے آپ کو کسی سے برتر سمجھیں اور نہ ہی کسی سے کمتر، بس اپنی شخصیت پہ توجہ دیں اور آگے بڑھتے چلے جائیں۔ ان دونوں کیفیات سے باہر نکلیں اور اعتدال کی کیفیت اختیار کریں، اعتدال ہی کمال ہے۔ شکریہ
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان