ہم تنقید کرتے ہیں، صبح شام ہر وقت تنقید کرتے ہیں لیکن کبھی آپ نے یہ سوچا ہے تنقید کے اثرات کیا ہوتے ہیں؟
میں نے بہت سارے لوگوں کو دیکھا ہے اور خود میرا اپنا بھی حال یہ ہے کہ اگر کوئی مجھ پر غیر ضروری تنقید کی جائے، وہ فیس بک پہ کمنٹ کی شکل میں ہو، فون پہ ہو، خط ہو، کچھ بھی ہو مجھے یہ باقاعدہ ڈپریشن میں مبتلا کر دیتی ہے۔
ابھی کل کی یہ بات ہے، آپ نے بھی دیکھا ہوگا۔ ہمارا ایک پاکستانی کرکٹر، جس نے فرسٹ کلاس کرکٹ چھوڑ دی۔ پاکستانی میڈیا پر پر بریکنگ نیوز تھی تو اس سے جب پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ جب بلاوجہ اس کے اوپر تنقید کی گئی تو اِس نے اُسے ایک ذہنی الجھن میں مبتلا کر دیا۔ اِس نے اُس جگہ کو چھوڑ دیا اور اپنے بھرپوروقت کے اندر اِس نے اپنے مستقبل کو خدا حافظ کہہ دیا۔
ہم بڑے آرام سےتنقید کر دیتے ہیں۔ یہ آپ نے آج کیا پہنا ہوا ہے؟ آپ نے یہ اندازہ نہیں لگایا کہ اس کے اثرات کیا ہیں؟ یہ آپ نے کیسےخط لکھا ہے؟ اٹھاکر لے جاؤ یہاں سے۔ آپ نے تو ایک چھوٹی سی بات کردی لیکن یہ تنقید بہت ہی زیادہ برے اثرات لا سکتی ہیں۔ ہر آدمی تنقید برداشت نہیں کر سکتا اور اگر آپ کو تنقید کرنی ہو تو اس کے بھی اصول و ضوابط ہیں۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جب آپ پر کوئی غیر ضروری تنقید ہو تو آپ کی اُس شخص کے بارے میں کیا رائے ہوتی ہے؟ آپ کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ آپ کی نفسیاتی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ اسی طرح سے جب آپ تنقید کریں تو یہ سوچ لیں کہ جس پر آپ تنقید کر رہے ہیں وہ اس کو ڈپریشن میں مبتلا کر سکتی ہے۔
ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ یہ کام بہت عام طریقے سے کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ ہم اس کا حوصلہ نہیں بڑھاتے، ان پہ تنقید کرتے ہیں، ہمارے ہاں گھروں کے اندر اور اساتذہ بھی یہی کام کرتے ہیں۔ بہت سارے لوگ اس بات کو فخر سمجھتے ہیں کہ بچوں کو ہر وقت روکتے رہیں، ٹوکتے رہے، تنقید کرتے رہیں، یہ کیا نمبر لے کر آئے ہیں؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ نمبر پہلے سے بہت اچھے ہیں لیکن ابھی ہمیں اور اوپر جانا ہے۔ دوسری طرف جب وہ نمبر لے کر آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ پورے محلے کے اندر سب سے کم نمبر آپ کے ہیں۔ بھائی! نمبر کم ہو سکتے ہیں لیکن کسی اور چیز میں وہ بہتر ہو سکتا ہے۔
اسی طرح سے معاشرے کےاندر کام کرتے ہوئے بھی یہ ہوتا ہے۔ ہماری موجودہ حکومت کےساتھ بھی، میں ان کی پارٹی کا ممبر نہیں ہوں، میراتعلق تو جماعت اسلامی سے ہے لیکن میں کبھی بھی اس بات میں شامل نہیں ہو سکتا کہ میں ان کی ہر بات کے اوپر تنقید کروں۔ مجھے یہ چاہیے کہ اگر انہوں نے کوئی ٹھیک کام کیا ہے تو میں اس کو سراہوں۔ ہاں اگر انہوں نے کوئی ایساکام کیا ہے تو میں اس پر تنقید بھی کرتا ہوں۔ یہ ایک اجتماعی معاملہ ہے لیکن انفرادی سطح کے اوپر بھی میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اگر پہلے کسی کی تعریف کر دیں، اس نے جوٹھیک کام کیے ہیں اس کو ٹھیک کہہ دیں تو اس کے بعد اس کوسمجھائیں کہ اس کے اندر یہ کمی تھی وہ دور کرلیں لیکن اگر آپ نے پہلے دن ہی اِس پہ تنقید شروع کی تو وہ اس کو ڈپریشن میں لےجائے گی۔
خاص طور پر میرے دوستوں، بہنوں اور بھائیو! میں آپ کے سامنے اس مسئلے کا ایک اہم ترین پہلو رکھنا چاہتا ہوں۔ اب تک میں نے جو بات کی وہ ایک عام بات تھی۔ بچے پہ تنقید کریں، نوجوان پہ تنقید کریں تو وہ اتنا برا اثر نہیں لیتے لیکن اگر ہم اپنی بڑی عمرکے لوگوں پر کریں تو اس کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں اور کبھی آپ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے۔ تجربہ نہ کریں دیکھ لیں کہ آپ نے کبھی کسی بزرگ پر، والد ، ماموں ،چچا ، تایا جو بڑی عمر کے لوگ ہوتے ہیں اگر کسی چھوٹی عمر کے صاحب نے ان پر کوئی تنقید کی تو وہ بہت زیادہ اس کو محسوس کرتے ہیں اور ان کو اس کا احساس اتنی شدت سے ہوتا ہے کہ وہ ڈپریشن کے مریض ہو سکتے ہیں۔
میرےدوستوں اگر کسی پہ تنقید کرنی ہو تو ذرا سوچ سمجھ لیجئے کہ کیا یہ ضروری ہے؟ تنقید کرتے وقت ہمیں چند باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ کیا یہ ضروری ہے؟ کیااس کے بغیر میں نہیں رہ سکتا؟ کیا میں اس کو کسی اچھے الفاظ کےساتھ کر سکتا ہوں؟ کیا اسےمیں علیحدگی میں نہیں بتا سکتا ہوں؟ یا اپنا غصہ نکالنے کے لیے کر رہے ہیں ؟ آپ کا غصہ تو نکل جائے گا، جذبات تو ٹھنڈے ہو جائیں گے، آپ خوش ہو جائیں گے لیکن اگلا ڈپریشن کامریض ہو سکتا ہے۔
ڈپریشن دنیا کا سب سے بڑا ایک مرض ہے۔ جس سےنکلنا ہرآدمی کے بس کی بات نہیں ہوتا۔ آپ کوشش کریں کہ تنقید ہولیکن مثبت انداز سے ۔یہ تین چار چیزیں جو میں نےبتائی ہیں ان کا آپ ضرور خیال رکھیں۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان