پھر چلا مسافر گلگت بلتستان
جس کا حسن ابھی زندہ ہے
مصنف: ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تبصرہ: طارق محمود
کاغان، ناران،بٹہ کنڈی،بابو سر ٹاپ ، بٹ گرام ، بشام،چلاس ،فیری میڈوز،سکردو، شنگریلہ، خپلو، دیوسائی،گلگت ، ہنزہ ،کریم آباد، خنجراب کتنے پیارے نام ہیں یہ، سن کر ہی کانوں کو بھلے لگتے ہیں۔ سیاحت کے شوقین افراد گرمی کے موسم میں ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
دو سال پہلے میں بھی خنجراب گیا تھا ،یہ ایک یاد گار سفر تھا جس کی یادیں بہت حسین ہیں ۔ اب دو دن سے ایک بار پھر خنجراب کا سفر کر رہا ہوں گاڑی کے ذریعے نہیں کتاب کے ذریعے۔اور یہ کتاب لکھی ہے ڈاکٹر مشتاق مانگٹ نے۔ ْپھر چلا مسافرٗ انھوں نے اپنے سفرناموں کی سیریز کا نام رکھا ہے۔زیر نظر کتاب ان کے گلگت بلتستان کے چار سفر ناموں پر مشتمل ہے۔
فزیکلی دیکھنے کا اپنا لطف ہے، لیکن مجھے اس کتاب سے بیش بہا خزینہ میسر آیا ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر نہ صرف سفر کی یادیں تازہ ہوئیں بلکہ تاریخ کے کئی باب بھی روشن ہوئے۔
بہت کم لوگ اس نظر سے دیکھتے ہیں جس نظر سے ڈاکٹر مشتاق مانگٹ صاحب نے ان علاقوں کو دیکھا۔کہتے ہیں کہ مینا پن کے قریب ہم ایک بڑے نالے کے پل پہ کھڑے تصویریں بنا رہے تھے کہ میری نظر دریائے ہنزہ کے سامنے دو پہاڑی چوٹیوں کے درمیان سورج پر پڑی جس کا رنگ زرد ہونا شروع ہو گیا تھا۔میں نے تصویریں بنانا چھوڑ دیں اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے کوئی نہ بلائے اورہزاروں فٹ کی بلندی پر کھڑے ہو کر ڈوبتے سورج کو بغیر پلک جھپکائے ٹکٹکی باندھ کر دیکھتارہا ۔سور ج کو غروب ہونے میں تقریبا دس منٹ لگے۔اس نظارے کو میں نے اپنے دل و دماغ میں محفوظ کر لیا۔ میں اب بھی آنکھیں بند کر کے اس منظر کو دیکھ لیتا ہوں اور مجھے اس واقعے کا ایک ایک لمحہ یاد ہے۔
جس سیاح پر قدرتی نظارے دیکھتے وقت یہ کیفیات طاری ہوجائیں تو اس کے مشاہدات کی گہرائی کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ کتاب لکھنے سے پہلے انھوں نے مختلف کتابوں، رسالوں اور نیٹ کی دنیا کو کھنگالا، مقامی لوگوں سے معلومات اکٹھی کیں اور انھیں الفاظ کے موتیوں میں پر ودیا ۔
کون سے علاقے پر امن ہیں اور کون سے خطرناک، کہاں پھلوں سے لدے درخت ہیں اور کہاں سنگلاخ خشک پہاڑ، کہاں سردی زیادہ ہوتی ہے اور کہاں کم۔ کس علاقے میں ٹھہرنا چاہیے اور کس میں نہیں، یہ سب معلومات تو اس کتاب کا حصہ ہیں ہی،اس لحاظ سے یہ ایک ٹورسٹ گائیڈ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر اس میں تاریخ ، جغرافیے ، معیشت اور معاشرت سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے بہت قیمتی لوازمہ موجود ہے۔راستے میں آنے والے علاقوں ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام، بشام، چلاس، ڈیموں، داسو ڈیم، دیامیر بھاشا ڈیم، پہاڑوں ،کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش،، کوہ قراقرم، چوٹیوں نانگا پربت، کےٹو، راکا پوشی ،ایگل نیسٹ ، لیڈی فنگر، آبشاروں، سڑکوں اور دریاوں کے بارے میں تاریخی معلومات اس کتاب کے حسن کو دو بالا کر دیتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کو اگرچہ تنہا سیر و سیاحت کرنا پسند ہے لیکن ان کے انداز سیاحت کو پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ ایک سیاح کو ان جیسا ہم سفر مل جائے تو اس کی سیاحت کا مزہ دوبالا ہو جائے۔
—–
ڈاکٹر صاحب نے اپنے پہلے سفر میں کشتی پر گاڑی رکھ کے پچیس منٹ میں عطا آباد جھیل عبور کرنے کاجو خو فناک منظر پیش کیا ہے، اسے پڑھتے ہوئےجسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔لیکن ڈرنے کی کوئی بات نہیں،اس جھیل کے ساتھ بہت اچھی سڑک تعمیر ہو گئی ہے ۔ کشتیوں کا خطر ناک سفر کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
سست بارڈر پر سردی اتنی کہ صبح کے وقت گاڑی کے ریڈی ایٹر کا پانی برف بن گیاتھا۔ گاڑی میں پڑی پانی کی بوتلیں جم گئی تھیں۔ فریش ہونے کے لیے پانی گرم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پانی کے برتن کو نیچے سے ملنے والی حرارت اور اوپر سے پڑنے والی سردی میں مقابلہ شروع ہو جاتا ہے اور دیر تک پانی گرم ہونے کا نام نہیں لیتا۔
کریم آباد میں ایک احد نامی بچہ ملتا ہے جو انھیں اپنے پوتے احمد جیسا لگتا ہے، اس کے ساتھ تصویریں بناتے ہیں اور آج وہ بچہ ان کا فیس بک فرینڈ ہے۔
ہوپر وادی میں لوگ آلو کو زمین میں دفن کرتے ہیں اور جب ضرورت پڑتی ہے تو نکال لیتے ہیں اس طرح زمین ان کے لیے کولڈ سٹوریج کا کام کرتی ہے۔
پہلا سفر انھوں نے ساڑھے چھے فٹ قد کے عدیل لیاقت کے ہمراہ کیا۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ لمبے قد کے کیا فائدے ہیں؟ تو اس نے بتایا کہ گھر میں بلب وغیرہ لگانے کے علاوہ لمبے قد کا کوئی فائدہ نہیں۔
——
ڈاکٹر صاحب نے گلگت کا نام پہلی بار ستر کی دہائی میں سنا تھا، جب وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے جنج گھر میں واقع سکول میں پڑھتے تھے۔ان دنوں ایک بڑی عمر کے صاحب جمعہ کے دن ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مجمع لگا کر ایک دوائی بیچا کرتے تھے اور لوگوں کو پہاڑوں اور لنگوروں کی تصویریں دکھا کر کہتے تھے کہ یہ اس دوائی کے اجزا گلگت کے پہاڑوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ان کا گلگت سے پہلا تعارف تھا۔ جنج گھر میں ان کے سکول کی بالائی منزل میں ایک مدرسہ تھا جس میں گلگت اور سکردو کے بچے بھی پڑھتے تھے۔2016 میں جب وہ پہلی بار سکردو گئے تو وہاں ان کی ملاقات مولانا عبدالخالق صاحب سے ہو ئی ، باتوں باتوں میں پتا چلا کہ مولانا ستر کی دہائی میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مذکورہ مدرسے میں پڑھتے رہے ہیں۔ پینتالیس سال بعد سکردو میں بیٹھ کر اپنے تعلیمی ادارے کی یادیں تازہ کرنا انھیں بہت اچھا لگا۔
——
ڈاکٹر صاحب نے درد مند دل پایا ہے، وہ سیر کرنے گئے ہیں فیری میڈوز کی۔ دیکھتے ہیں وہاں بجلی بہت کم ہے جو پانی والی ٹربائن سے پیدا ہوتی ہے۔علاقے کے لوگوں کو ایک عدد مزید ٹربائن کی ضرورت ہے،تو انھوں نے واپس آ کر وہاں رقم بھجوائی جس سے ان لوگوں نے ٹربائن خریدی اور ان کے گھر روشن ہوگئے۔ فیری میڈوز سے انھوں لکڑی کا بنا ہوا ایک پیالہ خرید کر لائے ہیں ، اس میں کبھی کبھار کھانا کھا کروہ فیری میڈوز کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں۔
عطا آباد جھیل پر کام کرنے والے مزدورں کی حالت دیکھ کر انھیں اپنے والد مرحوم کی یاد ستانے لگ جاتی ہے ۔ ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اوران کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔
چائنہ کی سرحد کے قریب سست بارڈر پر ایک تعلیمی ادارے کی خستہ حالی دیکھ کر ان کا دل کڑھتا ہے اور وہ مقامی لوگوں سے اس کی بہتری کے لیے کوششوں کا وعدہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ کتاب بھی انھوں نے اپنے پیسوں سے پرنٹ کروائی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی غزالی ٹرسٹ کو وقف کر دی ہے۔
——
ڈاکٹر صاحب بزنس مین بھی ہیں اورصنعت کار بھی، استاد بھی ہیں اور مربی بھی، قلمکار بھی اور ریسرچربھی۔ وہ کار خیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔انھیں جوانوں کو بزنس کی عملی تربیت دینی چاہیے۔ یہاں بہت سے بچے موٹیویشنل سپیکروں کے ہاتھوں جنھوں نے خود دس روپے کا کاروبار نہیں کیا ہوتا،مایوسی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ جبکہ کاروبار سکھانے کے گر کامیاب کاروباری لوگوں کو سکھانے اور پڑھانے چاہییں۔ ایک سیریز پھر چلا مسافر کی آئی ہے تو ایک سیریز کرو کامیاب کاروبار کی بھی آنی چاہیے۔ امید ہے کہ دل دردمند رکھنے والے ڈاکٹر مشتاق مانگٹ یہ کام بھی کر گزریں گے۔